کابل: افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر کی جانب سے افغان جنگ کے خاتمے کی تاریخ کے اعلان پر طالبان نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے 3 روز تک جاری رہنے والی ملاقات بغیر کسی معاہدے کے اختتام پذیر ہوئی۔

عسکریت پسند گروپ کی جانب سے یہ بیان امریکی سفیر کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے اپریل 2019 کو 17 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمے کی ڈیڈلائن قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، امریکا

یاد رہے کہ 2014 میں نیٹو کی جانب سے آپریشنز کے اختتام کے بعد سے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال ابتر ہے، جیسا کے 2001 میں طالبان کی جانب سے اقتدار کھونے کے بعد تھی۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان کے رہنماؤں اور امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد کے درمیان قطر میں سیاسی ہیڈکوارٹرز میں گزشتہ ہفتے دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ابتدائی مذاکرات تھے اور ان کا اختتام کسی معاہدے پر نہیں ہوا‘۔

علاوہ ازیں 3 طالبان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ’طالبان رہنماؤں نے امریکا کی جانب سے مذاکرات مکمل کرنے کی کسی ڈیڈ لائن کو منظور نہیں کیا‘۔

دوسری جانب کابل میں موجود امریکی سفارتخانے کی جانب سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گزیر کیا گیا۔

واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد ایک افغان نژاد امریکی سفارتکار ہیں، جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ 20 اپریل تک طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں گے اور یہ ڈیڈ لائن افغان صدارتی انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔

تاہم افغانستان کے ایک سینئر طالبان رکن کا کہنا تھا کہ ’زلمے خلیل زاد کی جانب سے ڈیڈلائن کے اعلان کی حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا اپنی فورسز کو واپس بلانے کے لیے کتنا بے چین ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان رہنما اس طرح کی کسی ڈیڈ لائن کے لیے راضی نہیں ہوئے کیونکہ ہم تمام محاذ پر جیت رہے ہیں‘۔


یہ خبر 20 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں