بحریہ ٹاؤن عدالت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2018
بحریہ ٹاؤن کراچی —فائل فوٹو
بحریہ ٹاؤن کراچی —فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن سے وصولیوں سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن عدالت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتزاز احسن اور علی ظفر پیش ہوئے۔

وکیل علی ظفر نے بتایا عدالتی حکم کے بعض احکامات پر عمل درآمد کرلیا ہے، عدالت نے بحریہ ٹاؤن کا مکمل لے آؤٹ پلان طلب کیا تھا، جو جمع کرا دیا ہے۔

اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا الاٹیز سے لی گئی رقم کی تفصیلات جمع کرائی ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ الاٹیز سے کی گئی وصولیوں کی تفصیلات جمع نہیں کراسکے۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس: عدالت نے الاٹمنٹ اور رقم وصولی سے پھر روک دیا

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ زمین کی قیمت کتنی ہے، تفصیلات فراہم نہیں کی گئی، اگر زمین کی قیمت اور الاٹیز سے لی گئی وصولی کی تفصیلات فراہم نہ کی گئی تو فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہوگا، ہم نے فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا بحریہ ٹاؤن زمین کی قیمت سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا؟ بحریہ ٹاون نے تفصیلات فراہم نہیں کرنی تو بتا دے، عدالت کسی تیسرے فریق سے بحریہ کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرالے گی۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کردے ورنہ ہم خود پتہ کروا لیں گے، جب تک بحریہ ٹاؤن تفصیلات فراہم نہیں کرتا آگے نہیں بڑھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے تفصیلات فراہم نہیں کرنی تو ہم حکم جاری کر دیں گے، بحریہ ٹاؤن کوئی اور کام کر لے یا دکان چلا لے۔

اس دوران جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن میں کمرشل اور رہائشی پلاٹس کی کیا قیمت ہے، یہ بحریہ ٹاؤن نے بتانا ہے۔

عدالت میں ججز کے ریمارکس پر وکیل بحریہ ٹاؤن نے بتایا کہ الاٹیز سے وصولی کرنے کے بارے میں بیان حلفی جمع کرا دیا ہے، بیان حلفی کی نقل سندھ حکومت بھی فراہم کردی ہے جبکہ ملک ریاض کا بیان حلفی بھی جمع کرایا ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے ہم آپ کو پیار سے کہتے ہیں، عدالت کے حکم پر عمل کریں، سمجھاتے ہیں کیسے عمل کرنا ہے پھر بھی نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ تاریخ ساز ہے؟

اس پر اعتزاز احسن نے بتایا کہ کتنی زمین فروخت کی اور کتنی وصولی کی اس کی تفصیلات فراہم کرچکے ہیں، اندازے سے بتا سکتے ہیں کہ کتنی وصولی کی، اضافی رقم زمین پر تعمیرات کی ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا بحریہ ٹاؤن نے زمین مفت دی۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن نے پلاٹ فروخت کیے یا گھر بنا کر دیے، جس پر اعتزاز احسن نے بتایا کہ پلاٹ اور اپارٹمنٹ فروخت کیے گئے۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا اصل رقبہ کتنا ہے، ابھی تک پردہ نہیں اٹھا۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) 12 ہزار ایکڑ بتا رہا ہےجبکہ بحریہ ٹاؤن 18 ہزار ایکڑ رقبہ بتاتا ہے۔

عدالت میں نیب کے وکیل نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے مالکان اور افسران شامل تفتیش نہیں ہوئے، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کو تو اس سے آگے جانا چاہیے تھا۔

اس دوران عدالت میں موجود ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ زمین کی قیمت کا تعین پرائس کمیٹی نے کرنا ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ابھی ہم نے آپ سے پوچھا ہی نہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے بحریہ ٹاؤن کو زمین بیچی نہیں تھی، تبادلہ کیا تھا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نیب سے ڈر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حکومت سندھ نے بتایا تھا کہ 17 ہزار ایکڑ زمین دی، سندھ حکومت نے اپنی ہی زمین کا دفاع ہی نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی بتائی گئی قیمت پر زمین کی قیمت کا تعین نہیں ہوگا، ساکھ کا معاملہ ہے، ہم اس پر نہیں جانا چاہتے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت کے گزشتہ حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو سندھ حکومت توہین عدالت کی درخواست دے سکتی ہے۔

اس موقع پر سروے جنرل آف پاکستان اور سپارکو نے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کل رقبہ 16 ہزار 700 ایکڑ ہے، 4 ہزار 6 سو 22 ایکڑ اضافی رقبہ ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بتائے گئے رقبے سے ایک انچ باہر ہوا تو بلڈوزر چلے گا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے وکیل علی ظفر سے کہا کہ ہمیں ایکشن لینےکا حکم جاری کرنے پر مجبور نہ کریں۔

مزید پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن اچھا منصوبہ ہے لیکن اِس میں جو کچھ ہوا اُس پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے‘

دوران سماعت عدالت نے سپارکو کے نمائندے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ لوگ کام نہیں کرسکتے، ہم ملک کے باہر سے لوگ بلوا لیں گے، آپ رقبہ بتا سکتے ہیں، حدود کا تعین نہیں کرسکتے، یہ کام تو 10 سال کا بچہ بھی کرسکتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ سپارکو کے سربراہ کو بلالیں کیونکہ سپارکو کے نمائندے کہہ رہے ہیں کہ رقبہ بتاسکتے ہیں حدود نہیں۔

سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے علاوہ بھی زمین خریدی ہے۔

اس دوران بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایک عمر رسیدہ رہائشی عدالت میں پیش ہوا اور کہا کہ 5 منٹ ہماری بات سن لیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ علی ظفر یہ آپ کا بندوبست لگتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن لوگوں سے وصولیوں سے متعلق رپورٹ پیش کرے اور عدالتی حکم کی تعمیلی رپورٹ بھی پیش کی جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن عدالت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ دیکھیں کہیں عدالتی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ ڈائریکٹر سپارکو کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لے آؤٹ پلان کا تقابلی جائزہ پیش کرے اور رجسٹرار آفس اکاؤنٹ کھولے جس میں بحریہ ٹاؤن پیسہ جمع کروائے۔

بعد ازاں عدالت نے بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

بحریہ ٹاؤن کیس

خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Nov 29, 2018 07:11pm
بحریہ ٹاؤن کے مالکان تو سب کو معلوم ہیں مگر افسران میں ایسے ایسے اداروں کے رٹائرڈ شامل ہیں، جن کے ماتحت نیب کے افسران نے کام کیا ہے۔ اسپارکو کا یہ کہنا بھی کہ رقبہ بتاسکتے ہیں حدود نہیں، 1961 سے قائم ادارے کی توہین ہیں۔ اسپارکو تو بغیر پوچھے اس طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور اس کا ڈیٹا رکھنا چاہیے۔ ابھی بھی کراچی کلفٹن کا ساحل اور مائی کلاچی روڈ پر سمندر کی بھرائی کرکے قبضہ کیا گیا۔ کلفٹن کے بارے میں تو کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کروڑوں ٹن مٹی کس نے لاکر بھرائی کی ہے، یہاں تک کے ساحل پر قانونی قبضے کے دعوے دار کراچی پورٹ ٹرسٹ |[ جس نے ڈیفنس ہائسنگ اتھارٹی کے خلاف ساحل قبضہ کرنے پر عدالت میں کیس کیا ہوا ہے مگر پیروی نہیں کی جارہی] وہ بھی اخبارات و اپنی ویب سائٹ پر دیے گئے اشتہار کے مطابق کلفٹن کے ساحل پر قبضہ کرنے والوں سے بے خبر ہے۔ اسپارکو کو پورے ملک میں قبضہ کرنے کی سرگرمیوں کا ڈیٹا رکھنا چاہیے۔
Malik USA Nov 29, 2018 09:59pm
@KHAN Good Comment. Eye opener. Now we can feel that someone has really heart for this country. Other wise we can not think to go against these Mafia. Inshallah Aane wala din behter hoga