زمین کی زبردست لوٹ مار کا معاملہ، کسی حد تک ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ظاہر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی 3 رکنی بینچ نے الگ الگ فیصلے سنائے، اکثیریتی فیصلے کے مطابق ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز میں بڑا نام رکھنے والے بحریہ ٹاؤن نے غیرقانونی طور پر زمینیں حاصل کیں اور فیصلے میں اُن کی منتقلیوں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس پر عدالتی فیصلے کے مطابق ’پلاٹ، عمارت، اپارٹمنٹ وغیرہ‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ریئل اسٹیٹ کی یہ زبردست اسکیم اب تک 30 ہزار ایکڑ تک پھیلی ہے۔ ایک دوسرے فیصلے میں عدالت نے بحریہ ٹاؤن اور محکمہ جنگلات کے درمیان ہونے والی ڈیل کو غیر قانونی ٹھہرایا، جس کے نتیجے میں اسلام آباد کی تقریباً 2 ہزار کنال جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ اسی طرح، عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق نیو مری ڈیولپمنٹ اسکیم کے لیے حاصل کی گئی زمین کو قانون کے منافی بتایا گیا۔

اس فیصلے میں ان سرکاری محکموں کی سرزنش کی گئی ہے جن محکموں نے خاموشی کے ساتھ بحریہ کو بڑے بڑے فوائد دیکھ کر سرکاری زمین کو تھوک کے حساب سے ناجائز طور پر فراہم کرنے میں سہولت فراہم کی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کردار کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ’ریاست اور عوام کے اعتماد کو انتہائی ٹھیس پہنچایا‘ جبکہ حکومت سندھ کو اس سب میں ’مددگار‘ قرار دیا۔ منافع بخش بحریہ کو کم قیمت والی ہاؤسنگ اسکیم کی قیمت کے برابر جس قدر کم ترین داموں میں سرکاری زمین فروخت کی گئی ہے اسے دیکھ کر اسکینڈل میں شامل افراد کی رشوت خوری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں جن کئی اہم نکات پر بات کی گئی ہے، ان میں سے چند تشویش کا باعث ہیں۔ اربوں روپے کے اس تعمیراتی منصوبے نے اس زمین پر واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں میں نسلوں سے آباد لوگوں کی زندگی عذاب کردی ہے۔ اس ظلم میں شریک اسٹیبلشمنٹ، سیاسی اشرافیہ اور سرکاری افسران میں شامل بااثر افراد نے پہلے سے دیوار سے لگے حقیقی رہائیشیوں کو ان کی جگہوں سے جبری طور پر ہٹانے کے لیے اپنے ریاستی جابرانہ اختیارات کو استعمال کیا۔

تاہم مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کے لیے نیب کو حکم تو دیا گیا ہے، مگر اس کے ساتھ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ، بحریہ ٹاؤن کراچی میں پیدا ہونے والے تھرڈ پارٹی انٹرسٹ کو تسلیم کرتے ہوئے، کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے سرمایہ کاری کرنے والوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ اس طرح غیر قانونی طریقوں پر محیط منصوبے کو قانونی صورت مل جائے گی۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ اقدام پہلے سے طے کردیا گیا تو ان مقامی رہائشیوں کو کیا ریلیف ملے گا جن کا زمین پر پہلا حق ہے؟ اس کے علاوہ اس معاملے پر نیب کا خراب ٹریک ریکارڈ بھی تشویش کا باعث ہے، مگر اس کے باوجود ایک بار پھر اس معاملے پر تحقیقات کا کام اسی ادارے کو سونپا گیا ہے۔

آخری لیکن اہم، اس پورے معاملے پر میڈیا کے کردار کی بات ہے، جنہوں نے اپنا فرض نبھانے اور عوامی مفاد کا محافظ بننے کے بجائے ملک کے زیادہ تر میڈیا ادارے ایک بزنس ٹائیکون کی دشمنی سے بچنے کے لیے اس پورے معاملے پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ انہوں نے بھی عملی طور پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

یہ اداریہ 6 مئی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں