جبری گمشدگی کمیشن کو 4 ماہ میں 318 شکایات موصول

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2018
لاپتہ افراد کے اہل خانہ احتجاج میں شریک ہیں — فائل فوٹو
لاپتہ افراد کے اہل خانہ احتجاج میں شریک ہیں — فائل فوٹو

اسلام آباد: جبری گمشدگیوں سے متعلق بنائے گئے انکوئری کمیشن کو 4 ماہ میں ملک بھر سے 318 شکایات موصول ہوچکی ہیں۔

کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق اس دوران فورم نے 226 پرانے مقدمات بھی خارج کیے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2011 سے، جب سے کمیشن قائم کیا گیا، کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے حوالے سے 5 ہزار 3 سو 69 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 3 ہزار 6 سو کیسز کو خارج کردیا گیا، جبکہ ان میں سے 2 ہزار لوگوں کی موجودگی کے حوالے سے کمیشن کو معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کا معاملہ: 'پولیس رپورٹس قصہ کہانیوں پر مبنی ہیں'

اگست 2018 سے کمیشن کو 318 نئی شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 59 اگست کے ماہ میں درج کرائی گئی، 74 ستمبر، 84 اکتوبر اور 101 نومبر میں درج کروائی گئیں۔

مذکورہ شکایات کی روشنی میں 35 افراد کو مبینہ طور پر نومبر 2015 میں لاپتہ کیا گیا جبکہ 45 شکایات نومبر 2016 میں لاپتہ کیے جانے والے افراد سے متعلق تھیں۔

رواں سال کے ابتدا میں کمیشن کو جنوری میں 80، فروری میں 116، مارچ میں 125، اپریل میں 162، مئی میں 86 جون میں 36 اور جولائی میں 77 لاپتہ افراد کی شکایات موصول ہوئیں۔

انکوئری کمیشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہوں نے نومبر میں 55 شکایات خارج کیں، انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ تقریبا مختلف تعداد میں ایسی ہی شکایات کو خارج کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کررہی، سردار اختر مینگل

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ فورم لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے میں ناکام رہا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق شکایت موصول ہونے پر کمیشن انکوئری کا آغاز کرتا ہے اور جب انہیں خفیہ اداروں کے حکام کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص ان کی زیر حراست تفتیش کے مرحلے میں ہے تو شکایت کو خارج کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'خارج کیے جانے والے لاپتہ افراد کے مقدمات میں سے بیشتر مرچکے ہیں یا پھر قبائلی علاقوں میں قید ہیں، جن میں سے کچھ ہی بازیاب ہوئے ہیں'۔

حال ہی میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے لاپتہ افراد کے حوالے سے اہم نوٹس لیا گیا اور متعلقہ حکام پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رواں سال جولائی میں ریمارکس دیے تھے کہ جبری گمشدگی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

آئی ٹی کے ماہر کی گمشدگی سے متعلق کیس میں 47 صفات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث حکام کی سرزنش کے لیے سخت اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ پٹیشنر کو ماہانہ ایک لاکھ 17 ہزار 5 سو روپے کی رقم ادا کی جائے یا متعلقہ حکام کی تصدیق کے مطابق رقم ادا کی جائے۔

گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور دفاع کے سیکریٹریز پر 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو حکم دیا تھا کہ لاپتہ فرد کی بازیابی میں کوتاہی پر حکام کی تنخواہیں کاٹ لیں۔


یہ رپورٹ 2 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں