سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی آمد پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی بڑی تعداد عدالت پہنچی اور احتجاج کیا۔

لاپتہ نوجوان کی والدہ اور بہنیں عدالت کے باہر چیخ پکار کرتی رہیں جبکہ ایک لاپتہ فرد کی والدہ سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کے دوران بیہوش بھی ہوگئیں۔

لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بتایا کہ محمد جاوید اور محمد شریف کو سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے دوست ایس ایچ او شعیب شوٹر نے اغوا کیا تھا، جس کے بعد ان نوجوانوں کو غائب کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کی ماہانہ رپورٹ جمع، ستمبر میں 74 کیسز درج ہوئے

خیال رہے کہ 9 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے کمیشن کی جانب سے مقدمات کے حوالے سے سست رفتاری پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاخیر کی صورت میں اس حوالے سے نوٹس لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 24 جون 2018 کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چيف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت ميں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی چيخ و پکار کے بعد اس حوالے سے خصوصی سيل قائم کرنے کا حکم دے ديا تھا۔

واضح رہے کہ 15 اگست 2018 کو سندھ ہائیکورٹ میں 20 سے زائد لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ایک خاتون، جن کا بیٹا 2012 سے لاپتا ہے، نے عدالت میں چیخ و پکار شروع کی اور خاتون نے اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے اعصاب پر قابو کھوتے ہوئے، خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی، تاہم انہیں بچا لیا گیا۔

2 ستمبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر احتجاج کرنے والے جبری گمشدہ کیے جانے والے افراد کے ورثا سے ان کے پیاروں کے نام لے کر لاپتہ افراد کمیشن کو ارسال کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں بھی لاپتہ افراد اور ان کے گھر والوں کا احساس ہے، چیف جسٹس

26 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کے کام کی نگرانی کے لیے 2 رکنی عدالتی بینچ تشکیل دے دیا۔

16 اکتوبر 2018 کو لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کمیشن نے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کو ماہانہ رپورٹ جمع کرادی جس میں کہا گیا ہے کہ ستمبر 2018 میں 36 لاپتہ افراد کا سراغ لگایا گیا جن میں سے 13 افراد اب بھی حراستی مراکز میں موجود ہیں جبکہ 74 کیسز رجسڑ ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں