کراچی: لاپتا شخص کی والدہ بیٹے کی محبت میں اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکھیں، کمرہ عدالت میں خود سوزی کی کوشش کی تاہم انہیں بچالیا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں 20 سے زائد لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے آغاز میں ایک خاتون جن کا بیٹا 2012 سے لاپتا ہے، نے عدالت میں چیخ و پکار شروع کردی۔

مذکورہ خاتون نے اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے اعصاب پر قابو کھوتے ہوئے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی، تاہم انہیں بچا لیا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی:لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں شور شرابا

عدالت کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے بزرگ خاتون کو پکڑ لیا اور ان سے پیٹرول کی بوتل چھین لی۔

خاتون نے قبلِ ازیں عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے فیصل کو حراست میں لینے والوں کو لوگوں نے دیکھا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیٹے کی بازیابی کے لیے لوگ فون کرتے رہے لیکن اس بارے میں کچھ نہیں ہوا۔

سماعت کے دوران عدالت نے لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کیا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو خود تحقیقات کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کے کمیشن نے 3 ہزار 3 سو 31 درخواستیں خارج کردیں

جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس افسران کو لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے کسی بات کا علم نہیں ہے جبکہ ہر سماعت پر عدالت میں اسٹیریو رپورٹ پیش کردی جاتی ہے۔

عدالت نے ہدایت جاری کی کہ اعلیٰ پولیس افسران لاپتا افراد کے معاملے میں خود دلچسپی لیں اور منیر علی، رفیق، اویس، محمد فیصل اور دیگر افراد کو بازیاب کرواکے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔

رینجرز پراسیکیوٹر حبیب نے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ لاپتا افراد کو رینجرز نے حراست میں نہیں لیا۔

بعدِ ازاں عدالتِ عالیہ نے کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں