سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چيف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی جس دوران کمرہ عدالت ميں لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے چيخ و پکار کی جبکہ چیف جسٹس نے اس حوالے سے خصوصی سيل قائم کرنے کا حکم دے ديا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جہاں لاپتہ افراد کے اہل خانہ حساس اداروں کے نمائندوں کو مخاطب کرکے الزامات لگاتے رہے اور چیخ وپکار کی اور سوال کیا کہ ہمارے پيارے برسوں سے لاپتہ ہيں کوئی بتانے کو تيار نہيں وہ کہاں ہيں۔

لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے کہا کہ ان کے پاس ثبوت ہيں ان کے پیاروں کو انہی اداروں نے ہی اٹھايا ہے۔

چيف جسٹس لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے شور شرابے پر برہم ہوئے اور کمرہ عدالت سے اٹھ کر چيمبر ميں چلے گئے تاہم تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور کہا کہ آپ لوگوں نے عدالت کا تقدس پامال کیا، میرا کہنا بھی آپ لوگ نہیں مانے اور شور شرابا کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کیس: اسٹیبلشمنٹ نے ملک دولخت ہونے پر بھی سبق نہیں سیکھا

چیف جسٹس ثاقب نثار نے چیخ وپکار کرنے والی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کمرہ عدالت میں ڈائس پر گھونسے ماررہی ہیں، آپ کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو جیل بھیج دیتا، میں رات 2 بجے آپ لوگوں کے لیے نکلا مگر آپ لوگوں نے توہین عدالت کی، آپ لوگوں نے پولیس اہلکار پر ہاتھ کیسے اٹھایا۔

بعد ازاں ڈائس پر گھونسہ مارنے والی خاتون نے چیف جسٹس کے حکم پر غیر مشروط معافی مانگ لی۔

چيف جسٹس نے دوران سماعت سب سے پہلے لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی لڑکی نيلم کو بلايا،اور ان کے والد کے متعلق تفصيلات معلوم کیں، چيف جسٹس نے آئی جی سندھ اور ديگر حکام کو ہدايت کی کہ نيلم کے والد کے متعلق تحقيقات کے بعد رپورٹ جمع کرا ديں۔

لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران چيف جسٹس نے تمام درخواستيں وصول کرنے اور لاپتہ افراد کے حوالے سے خصوصی سيل قائم کرنے کا حکم ديا۔

سماعت کے دوران اپنے ريمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئي ذاتی تنازع ميں لاپتہ ہوا ہے يا اس کی زندگی کو نقصان ہوا ہے تو عدالت کو بتائيں، يقين ہے کہ رياستی اداروں کے پاس يہ افراد نہيں ہوں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت کے پیش نظر اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے والی سڑک کو پولیس نے ہر قسم کے ٹریفک اور پارکنگ کے لیے بند کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں