اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خطرے کے حوالے سے مرتب کردہ جائزہ رپورٹ الیکٹرونک طریقے سے ارسال کردی گئی۔

اس کے ساتھ 12 رکنی وفد بھی روانہ کیا گیا ہے جو پاکستان کے گرے لسٹ سے متعلق اخراج کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت پیش کرے گا۔

اس ضمن میں ایک سینئر عہدیدار نے ڈان اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ عارف احمد خان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا وفد آسٹریلیا کے شہر سڈنی روانہ ہوا ہے جہاں وہ ایف اے ٹی ایف کے 3 روزہ اجلاس میں شرکت کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا وفد پاکستان کی کارکردگی سے اب تک متاثر نہ ہوسکا

وفد کے دیگر اراکین میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے نمائندے شامل ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذکورہ وفد ارسال کردہ رپورٹ کی روشنی میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے گا، رپورٹ میں حکومت کے اداروں اور ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی روشنی میں تشکیل دیے جانے والے منصوبے پر عملدرآمد کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2015 سے اب تک دہشت گردوں کی مالی معاونت کے سلسلے میں رقم کی 4 ہزار 6 سو 43 مشتبہ منتقلیوں کی نشاندہی ہوئی جو بلاک کردی گئیں۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستانی اقدامات غیر تسلی بخش قرار

دوسری جانب صرف سال 2018 میں مجموعی طور پر ایک ہزار ایک سو 67 ٹرانزیکشنز پکڑی گئیں جس میں 9 سو 75 مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹ جبکہ 2 سو 10 خفیہ مالیاتی رپورٹس پر سامنے آئیں۔

رپورٹ میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے 2 انتہائی اہم راستوں کا ذکر کیا گیا جن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد اور پاکستان اور ایران کی سرحد شامل ہے جہاں سے اس قسم کی رقوم منتقل ہوتی ہیں۔

چنانچہ اس حوالے سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے پاک افغان سرحد پر ٹیکنالوجی کی مدد سے چیکنگ اور سیکیورٹی کا نظام مزید سخت کیا گیا جبکہ ایران کے ساتھ متصل سرحد پر بھی اس سلسلے میں سخت اقدامات کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کے تحفظات دور کرنے کیلئے ایکشن پلان تیار

رپورٹ میں بتایا گیا کہ طویل ساحلی پٹی بھی اسمگلنگ کا بڑا ذریعہ ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میرین کوسٹ گارڈز کی مدد سے سیکیورٹی بہتر بنائی گئی اور افغانستان جانے والا تجارتی سامان بھی اس غیر اندراج شدہ مالی منتقلیوں کی وجہ ہے۔

خیال رہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع میں عطیات، رقم کی اسمگلنگ، قدرتی وسائل، منشیات، این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف بی آر کی جانب سے 2015 سے اب تک ایک ہزار ایک سو 85 ٹرانز یکشنز، ایس بی پی نے ایک ہزار 49 جبکہ ایف آئی اے نے ایک ہزار 2 سو 95 ٹرانزیکشنز کا سراغ لگایا۔

تبصرے (0) بند ہیں