اسلام آباد: پاکستان کے دورے پر آئے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کا وفد اب تک پاکستان کی کارکردگی سے متاثر نہیں ہوا، جس کے بعد انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ گروپ کے ارکان نے قانونی فریم ورک نامکمل اور ادارہ جاتی انتظامات کو کمزور پایا اور انہوں نے غیر منافع بخش تنظیموں کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال، بروکریج ہاؤسز، کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ایکسچینج کمپنیوں اور کارپوریٹ اداروں کے عطیات کے لیے موجود نظام زیادہ مضبوط نہ ہونے پر خدشہ ظاہر کیا۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کی پیش کردہ سفارشات پر عملدرآمد کا فیصلہ

ذرائع کا کہنا تھا کہ اے پی جی کا ماننا تھا کہ جن علاقوں میں قانونی فریم ورک مضبوط ہے وہاں مالیاتی بہاؤ کم کرنے کے لیے عمل درآمد کا نظام نہیں، اسی طرح یہ کمی ریئل اسٹیٹ بروکرج میں بھی عام ہے، جہاں بڑے کاروباری معاملات قانونی دائرے سے باہر ہیں۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی ایک ٹیم نے اے پی جی کو رپورٹ کیا کہ بڑے پیمانے پر بروکریج ہاؤسز دستاویز کی صورت دی گئی تاہم ریئل اسٹیٹ ڈیلرز اور ان کے کام عام طور پر ان کے قانونی دائرہ سے باہر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ اے پی جی نے کوموڈتی ٹریڈنگ اور سروس فراہم کنندہ کے دوبارہ تصدیق کے ذریعے منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین پر عمل درآمد میں کمی محسوس کی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وفد نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوئی وقت دیں تاکہ ان مسائل کو حل کیا جاسکے اور تجویز شدہ میٹرکس پر مستقبل کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکے۔

اس کے ساتھ ساتھ حکام کے پاس رسٹورینٹ اور تجارتی مراکز سمیت دیگر مقامات پر مذہبی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے رکھے گئے عطیات باکس کا مکمل ریکارڈ ہونا چاہیئے جبکہ تمام کرنسی اور ریئل اسٹیٹ ڈیلرز کا ہر چھوٹی اور بڑی ٹرانزیکشن کا بھی ریکارڈ ہو۔

خیال رہے کہ وفد کے اس دورے کا مقصد پاکستان ایف اے ٹی ایف کے طریقہ کار کے تحت پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف پاکستان کے موثر کن اقدامات کا تعین کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف وفد کے پاکستانی اداروں سے سوالات

یاد رہے کہ ایشیا پیسیفک گروپ کا 9 رکنی وفد 12 روزہ دورے پر پاکستان میں ہے، جہاں وہ ایکشن پلان کے نکات پر پاکستانی حکام سے سوالات کر رہے ہیں۔

پاکستان کا دورہ کرنے والی اس ٹیم میں برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے رکن ایان کولنس، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ برائے خزانہ کے جیمس پروسنگ، مالدیپ کے فنانشل انٹیلیجنس یونٹ کے اشرف عبداللہ، انڈونیشن وزارت کزانہ کے بوبی واہیو ہرناوان، پیپلز بینک آف چائنا کے گونگ جنگیان اور ترکی کی وزارت انصاف کے مصطفیٰ اوزٹام شامل ہیں۔

اے پی جی کے وفد کو ایس ای سی پی کے علاوہ وزارت داخلہ، خارجہ، خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، قومی احتساب بیور (نیب)، اینٹی نارکوٹکس فورس، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگ اور صوبائی کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ بریفنگ دینے کے لیے موجود رہیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کو اگلے سال ستمبر کے اختتام تک انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے 10 نکاتی ایکشن پلان پر عمل کرنا ہے جس کے حوالے سے پاکستان نے رواں سال جون میں ایف اے ٹی ایف کو یقین دلایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں