یورپی یونین کا انتباہ، امریکا کا وینزویلا میں ’آزادی کا ساتھ‘ دینے پر زور

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2019
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی

نیویارک: یورپی یونین کے وینزویلا میں شفاف انتخابات کرانے پر زور کے پیش نظر امریکا نے تمام ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ وینزویلا میں ’آزادی کی قوت‘ کے ساتھ کھڑے رہیں۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں بتایا کہ مدورو ’ناجائز مافیا ریاست‘ کے رکن ہیں اور وہ وینزویلا کے بحران کے ذمہ دار ہیں۔

وینزویلا میں آنے والے اس بحران سے غذا اور ادویات کی کمی ہوگئی جس کی وجہ سے 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہورہے ہیں۔

مائیک پومپیو نے تمام ملکوں سے امریکا کے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو صدر تسلیم کرنے کے فیصلے کی تائید کرنے کو کہا۔

مزید پڑھیں: وینزویلا میں شدید سیاسی بحران، مظاہروں میں 12 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ ’اب وقت ہے کہ ایک رخ چنا جائے، کوئی تاخیر نہیں، کوئی کھیل نہیں۔ یا تو آپ آزادی کے ساتھ کھڑے ہوں یا مدورو اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ‘۔

مائیک پومپیو نے مدورو کا ساتھ دینے والے ملک چین اور روس پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ اصول نہیں دیکھ رہے بلکہ مالی مفاد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین اور روس سالوں میں کی گئی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری واپس ملنے کی امید پر ناکام حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ روس نے بھی امریکا کو مداخلت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور سلامتی کونسل کے اجلاس کو روکنے کی کوشش کی تھی تاہم اجلاس میں 15 میں سے 9 ووٹ اس کو جاری رکھنے کے حق میں ملے تھے۔

روسی سفیر ویسیلی نیبینزیا کا کہنا تھا کہ ’وینزویلا امن اور سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے، امریکا کا مقصد معاملے میں مداخلت کرنا ہے۔

انہوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ ’وہ لاطینی امریکا کی قدیم تاریخ کو بدلنا چاہتا ہے اور واشنگٹن نے اس سے گھر کے پچھلے حصے کی طرح برتاؤ کیا ہے جہاں وہ جو چاہے کرسکیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سفری پابندیوں کا معاملہ: امریکی سپریم کورٹ نے حکومتی فیصلے کی توثیق کردی

تاہم روس نے سیکیورٹی کونسل کے بیانیے، جس میں ’گوائیڈو کی پوری طرح حمایت‘ کا کہا گیا تھا، کو روکنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ گوائیڈو کو کئی ممالک کی حمایت حاصل ہے تاہم تمام لاطینی امریکی ممالک اس کی حمایت نہیں کرتیں۔

یورپی قوتوں نے پہلے پہل تو محتاظ انداز میں ابتدائی بیان دیا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مدورو نے 8 دنوں میں شفاف انتخابات کرانے کا اعلان نہیں کیا تو وہ گوائیڈو کو تسلیم کرلیں گے۔

گوائیڈو نے یورپی قوتوں کے تعاون پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’یورپی یونین کی ہماری قانونی اور آئینی جدوجہد کے لیے تعاون بڑھ رہا ہے‘۔

تاہم 28 ممالک کے بلاک کے دیگر اراکین جن میں آسٹریا، گریس اور پرتگال شامل ہیں، نے حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھیں: برازیل کی جیل میں دو گروپوں میں تصادم، 25 قیدی ہلاک

گریس کے حکمراں سیریزا نے عوامی سطح پر مدورو کی حمایت کرتے ہوئے ’قانونی صدر‘ کہا اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کا اعلان کیا۔

گوائیڈو جنہوں نے تقسیم اپوزیشن کو اکٹھا کیا ہے، نے رواں ہفتے ایمنسٹی کی پیشکش کرتے ہوئے فوجی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی تاہم انہیں اب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

یونی وژن کو اسکائپ انٹرویو کے دوران انہوں نے تجویز دی کہ مدورو کو عہدہ چھوڑنے پر ایمنسٹی دی جاسکتی ہے۔

تاہم انہوں نے مدورو سے مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکراتے دیا اور کہا کہ ’مدورو مخالف مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں، میں ایسے بحران میں کسی جعلی مذاکرات میں شرکت نہیں کروں گا‘۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مچل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے احتجاج کے دوران 350 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔

دوسری جانب گوائیڈو نے آئندہ ہفتے ایک اور بڑے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کردیا ہے۔

مدورو نے بھی اپنی جانب سے وینزویلا کی سڑکوں پر بغاوت کی مزاحمت کی کال دی ہے۔

واضح رہے کہ وینز ویلا میں مدورو کی حکومت کے مخالف مظاہرے اس وقت شدت اختیار کرگئے جب اپوزیشن لیڈر گوائیڈو نے خود ساختہ طور پر ملک کی صدارت کا دعویٰ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا: سفری پابندی پر عمل درآمد کا آغاز

جوان گوئیدو نے وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس میں ہزاروں افراد کے سامنے خود کو صدر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہی واحد راستہ ہے مدورو کی ’آمریت‘ کے خاتمے کا جس کی وجہ سے ملک میں غربت میں اضافہ اور غذا کا بحران بھی آیا۔

انہوں نے پرجوش عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جانتا ہوں اس کے کیا نتائج ہوں گے‘ جس کے بعد وہ فوری طور پر نامعلوم مقام پر چلے گئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوان گوائیڈو کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وینزویلا کے عوام نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدورو اور اس کے دور حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور آزادی کا مطالبہ کیا ہے‘۔

دوسری جانب وینزویلا کے وزیر دفاع ولادیمیر پادرینو نے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو خود ساختہ صدر کا دعویٰ کرنے پر بغاوت کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

نکولس مدورو نے امریکی صدر کی جانب سے جوان گوائیڈو کی حمایت کے جواب میں امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور امریکی سفیروں کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

نکولس مدورو جنہیں وینزویلا کی افواج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی حمایت حاصل ہے نے اپنے حامیوں سے مدد طلب کرتے ہوئے امریکا کی خانہ جنگی کے دوران مداخلت یاد دلائی۔

صدارتی محل آنے والے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکیوں کا اعتبار نہیں کرو، وہ دوست نہیں اور نہ ہی سچے ہیں، وہ صرف مفاد پرست ہیں اور وینزویلا کے تیل، گیس اور سونے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 27 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں