افغانستان میں امن عمل کیلئے زلمے خلیل زاد کے نئے سفارتی مشن کا آغاز

اپ ڈیٹ 11 فروری 2019
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

واشنگٹن: امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد افغانستان، قطر اور پاکستان میں مذاکرات کے لیے ایک اور امن مشن کا آغاز کرنے کے لیے واشنگٹن سے روانہ ہوگئے۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کا بھی بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اگر دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے طالبان کابل، قندھار اور ننگرہار میں دفتر کھولیں گے تو اس اقدام کا کھلے بازوؤں سے خیر مقدم کیا جائے گا۔

تاہم طالبان ترجمان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوحہ میں رہنے کو ترجیح دیں گے اور اس مرکز کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے کوششیں کریں گے۔

خیال رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر 2013 سے قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان معاہدے میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھیں گے، امریکی جنرل

واشنگٹن میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد اور ان کے ہمراہ وفد خطے میں مذاکرات کے نئے دور کے آغاز سے قبل بیلجیئم، جرمنی اور ترکی کے حکام سے بھی مشاورت کرے گا۔

امریکا کے نمائندہ خصوصی کا حالیہ مشن اتوار سے شروع ہونے کے بعد 28 فروری تک جاری رہے گا جس کے بعد وہ دوبارہ واشنگٹن واپس لوٹ جائیں گے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ دورہ اٖفغانستان کے مستقبل کے تعین کی راہیں تلاش کرنے کے لیے امریکا کے قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کی خاطر تمام افغان فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

اس سلسلے میں زلمے خلیل زاد اپنے ’دورے کے دوران ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں سے اس مقصد کے حصول کو تیز کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کریں گے‘۔

خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد نے امن مذاکرات میں تعاون کرنے پر پاکستان کے کردار کو سراہا تھا اور کہا تھا کہ سینئر طالبان رہنما ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی حکومت پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتی ہے اور اس ’اہم ملک‘ سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ انہوں نے امن مذاکرات مکہ میں کرنے کی تجویز دی تھی لیکن طالبان اس کے بجائے ماسکو چلے گئے۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل کے دوران اشرف غنی اپنے اختیارات کی واپسی کے خواہشمند

افغان صدر نے بتایا کہ امن مذاکرات کے لیے ان سے منصب چھوڑنے کی توقع کی جارہی تھی لیکن وہ یہ نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے ہیں چناچہ وہ لوگوں کے ووٹوں کو داؤ پر نہیں لگائیں گے۔

باوجود اس کے کہ افغان حکومت ماسکو مذاکرات کا حصہ نہیں تھی ایک عہدیدار نے بتایا کہ ماسکو قراردار کے کچھ حصے افغان حکومت اپنے ایجنڈے میں بھی شامل کرے گی۔

خیال رہے کہ اس قرارداد میں تمام غیر ملکی افواج کا انخلا، دوحہ مذاکرات کی حمایت، اقوام متحدہ کی کالعدم فہرست سے طالبان رہنماؤں کے ناموں کا اخراج، قیدیوں کی رہائی اور قطر میں طالبان کے دفتر کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔


یہ خبر 11 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں