کراچی پولیس کا سیہون حملے میں ملوث ’دو دہشت گرد‘ گرفتار کرنے کا دعویٰ

20 فروری 2019
دونوں دہشت گرد داعش میں شمولیت اختیار کرچکے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
دونوں دہشت گرد داعش میں شمولیت اختیار کرچکے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

کراچی پولیس نے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کردیا۔

پولیس نے کہا کہ ’دونوں دہشت گرد سیہون حملے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، بلوچستان میں ہزارہ اور مسیحی برادری کے افراد اور کراچی میں نجی کمپنی کے اعلیٰ افسر کو قتل کرنے میں ملوث تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سی ٹی ڈی کا 5 دہشت گرد گرفتار کرنے کا دعویٰ

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ عامر فاروقی نے بتایا کہ ’ملیر پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں لشکر جھنگوی کے دو مشتبہ دہشت گردوں کو گڈاپ سے گرفتار کیا گیا‘۔

سینئر افسران نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’زیرحراست فرقان بنگلزئی عرف اعظم اور علی اکبر عرف حاجی ’خطرناک دہشت گرد‘ ہیں۔

ڈی آئی جی عامر فاروقی نے انکشاف کیا کہ دونوں مشتبہ دہشت گرد داعش میں شمولیت اختیار کرچکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فرقان سندھ اور بلوچستان میں متعدد دہشت گرد واقعات میں ملوث رہا اور لشکر جھنگوی (عسکری) کا کمانڈر تھا۔‘

مزیدپڑھیں: کراچی: رینجرز کی کارروائی، گینگ وار کے 3 دہشت گرد گرفتار

انہوں نے بتایا کہ ’ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ مقتول مفتی ہدایت اللہ، نعمان اور مقبول نے سیہون شریف میں دھماکے کا منصوبہ تیار کیا اور فرقان نے سیہون کی ریکی کرنے کے بعد تمام معلومات مفتی ہدایت اللہ کو فراہم کی۔

ریکی مکمل ہونے کے بعد مقبول اور نعمان خودکش حملہ آوار لے کر آئے جس کی شناخت عثمان کے نام سے ہوئی اور اس نے 16 فروری 2017 کو خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 82 زائرین جاں بحق اور 383 دیگر زخمی ہوئے ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

پولیس نے بتایا کہ دوران تفتیش فرقان نے تصدیق کی کہ 20 جولائی 2018 کو کلات میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مفتی ہدایت اللہ ہلاک ہوا اور مجلس شوریٰ نے ہدایت اللہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ’مفتی فورس‘ تشکیل دی۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہدایت اللہ کی موت کے تیسرے روز لشکر جھنگوی کے رہنما مولوی خیر محمد نے مشتبہ زیر حراست دہشت گردوں فرقان اور نعمان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: القائدہ بر صغیر کا انتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار

زیرحراست مشتبہ دہشت گرد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’میں نے 25 جولائی 2018 کو کوئٹہ میں پولنگ اسٹیشن پر خودکش حملہ آوار کو ٹارگیٹ دیا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں پولیس ہلکاروں سمیت 32 افراد جاں بحق ہوئے‘۔

پولیس کے مطابق لشکر جھنگوی کے دہشت گرد فرقان نے 4 جون 2018 کو کوئٹہ پشین کے قریب پیلی ٹیکسی میں سوار ہزارہ براردی کے 4 یا 5 افراد کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔

فرقان نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ ’کوئٹہ میں 11 جون 2017 کو 4 پولیس اہلکاروں اور کوئٹہ بازار میں مخالف فرقے سمیت سریاب روڈ پر ایک درزی کو نشانہ بنایا‘۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ’فرقان نے اپنے ساتھی کی مدد سے کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں دکاندار اور 2 اپریل 2018 کو ارباب خان روڈ پر مسیحی برادری کے 3 افراد اور ایک مذہبی اسکالر کو قتل کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سی ٹی ڈی کا لشکر جھنگوی کے مبینہ 4 دہشت گرد گرفتار کرنے کا دعویٰ

ڈی آئی جی عامر فاروقی نے بتایا کہ ’فرقان اور اس کے ساتھی دہشت گردوں نے 27 مئی 2018 کو سریاب روڈ پر دو ٹریفک پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور پولیس کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور محمود اور راشد ہلاک ہوئے جبکہ فرقان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا‘۔

ڈی آئی جی ایسٹ نے زیر حراست مشتبہ دہشت گرد علی اکبر کے بارے میں بتایا کہ وہ لشکر جھنگوی کا رکن ہے اور لشکر جھنگوی کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان میں ملوث رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’علی اکبر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نجی کمپنی کے مینجر عابد سہیل کو کراچی کے علاقے ٹیپو سلطان سے اغوا کیا اور تاوان کی عدم ادائیگی پر قتل کردیا تھا‘۔

مزیدپڑھیں: سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار

اس حوالے سے انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ مشتبہ شخص نے گلستان جوہر سے راحیل نامی شہری کو اغوا کیا اور 1 کروڑ تاوان وصول کرکے چھوڑ دیا تھا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ بلوچستان پولیس کو دونوں دہشت گردوں کے متعلق آگاہ کردیا گیا ہے اور بلوچستان پولیس انہیں قائم مقدمات میں باقاعدہ طور پر گرفتار کرنے کے لیے کراچی پہنچ رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں