خانیوال: موبائل نہ دینے پر منگیتر کے ہاتھوں لڑکی قتل

23 فروری 2019
ملزم نے منگیتر کو قتل کرنے کے بعد اپنے بھائی کو بھی زخمی کیا — فائل فوٹو: اے پی
ملزم نے منگیتر کو قتل کرنے کے بعد اپنے بھائی کو بھی زخمی کیا — فائل فوٹو: اے پی

صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں نوجوان لڑکی کو اس کے منگیتر نے بے رحمانہ طریقے سے چھری کے وار کر کے قتل کردیا جسے پولیس نے غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ قرار دے دیا ہے۔

پولیس کے مطابق واقعہ خانیوال کی تحصیل کبیروالہ میں پیش آیا جہاں ملزم نے اپنی 16سالہ منگیتر کے کمرے میں داخل ہو کر اس سے اس کا موبائل فون مانگا، جسے اس نے دینے سے انکار کیا۔

مزید پڑھیں: کوہاٹ میں غیرت کے نام پر 2 افراد قتل

لڑکی کی جانب سے موبائل فون دینے سے انکار پر ملزم نے موبائل فون ڈھونڈنا شروع کردیا لیکن موبائل نہ ملنے پر اس نے ناصرف وحشیانہ طریقے سے لڑکی کے ہونٹ کانٹ دیے بلکہ اس کے سینے اور پیٹ میں چاقو سے پے درپے وار بھی کیے۔

ملزم اور مقتولہ پڑوسی ہیں اور جب ملزم فرار ہو رہا تھا تو گھر کے باہر موجود اس کا بھائی اپنی ہونے والی بھابھی کی چیخ و پکار سن کر چوکس ہو گیا۔

لڑکے نے اپنے بھائی کے ہاتھ میں چھری دیکھی تو وہ اس کی جانب بڑھا لیکن ملزم نے پکڑے جانے کے خوف سے بے پروا ہو کر اپنے ہی بھائی پر چھریوں سے وار کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: سکھر: غیرت کے نام پر پولیس اہلکار نے چچا، کزن کو قتل کردیا

پولیس کے مطابق ملزم کے بھائی کو علاج کے لیے ملتان منتقل کردیا گیا ہے جہاں اس کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت لڑکی کے والد کی مدعیت میں کبیر والا کے صدر تھانے میں مقدمہ درج کرلیا۔

لڑکی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے کبیر والا کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ملزم اب بھی فرار ہے لیکن ڈی ایس پی کبیر والا مہر وسیم کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے اور امید ظاہر کی کہ ہفتے کو ملزم پولیس کی حراست میں ہو گا۔

قانون کے باوجود غیرت کے نام پر قتل جاری

غیرت کے نام پر قتل کے قانون کو رائج ہوئے 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں خصوصاً خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اکتوبر 2016 میں دونوں ایوانوں میں طویل عرصے سے زیر التوا خواتین کے حق میں بنائے گئے بل کو بالآخر پاس کر لیا گیا تھا۔

اس موقع پر خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور رہنماؤں نے اس اقدام کو بہت سراہا تھا البتہ وکلا اور سماجی رضاکاروں کا کہنا تھا کہ قانون منظور ہوئے 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود غیرت کے نام پر قتل خطرناک رفتار سے جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: خیر پور: کم سن رمشا وسان کے قتل کا مرکزی ملزم گرفتار

پاکستان میں انسانی حقوق کے آزاد کمیشن کے مطابق اکتوبر 2016 سے جون 2017 کے درمیان کم از کم 280 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل پر عمر قید کی سزا رکھی گئی ہے لیکن قتل کو غیرت کے نام پر قتل تصور کیا جائے گا یا نہیں، اس کا انحصار جج پر ہے۔

نامور سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم قتل کے لیے کوئی اور عذر بھی تراش سکتا ہے اور اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔


یہ خبر 23 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں