افغان نگراں حکومت سے متعلق وزیر اعظم کا بیان غلط انداز میں پیش کیا گیا، دفترخارجہ

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2019
وزیر اعظم نے افغانستان میں امن کے لیے جاری سیاسی مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی ظاہر کی تھی— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم نے افغانستان میں امن کے لیے جاری سیاسی مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی ظاہر کی تھی— فائل فوٹو: اے پی پی

دفتر خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو میڈیا میں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا جس کی وجہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے غلط ردعمل سامنے آیا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے انتخابات کے پاکستانی ماڈل کی جانب اشارہ کیا تھا جس میں الیکشن کا انعقاد عبوری حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے بیان پر احتجاج، افغانستان نے پاکستان سے اپنا سفیر بلالیا

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔

دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے افغانستان میں امن کے لیے جاری سیاسی مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی ظاہر کی تھی اور امن عمل کے اس اہم مرحلے پر اس بیان کو بنیاد بنا کر پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو نظرانداز کرنے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان افغانستان کے بہادر عوام کی حالت زار کو سمجھتا ہے جن کا چار دہائی سے جاری جنگ اور پرتشدد واقعات کے بعد امن سے رہنے کا پورا حق ہے۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ طالبان نے موجودہ حکومت سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع بیان پر افغان مشیر کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا امکان

عمران خان نے کہا تھا کہ انہوں نے افغان حکومت کے تحفظات کے سبب طالبان رہنماؤں سے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا کے ساتھ کئی ماہ سے مذاکرات میں مصروف طالبان افغان حکومت سے مذاکرات سے مسلسل انکار کرتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے افغانستان نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان کے بیان سے پاکستان کی مداخلتی پالیسی ثابت ہوتی ہے اور یہ افغانستان کی خود مختاری پر حملہ ہے‘۔

امریکا اور طالبان حکومت میں 17 سال تک جاری جنگ کے بعد مذاکرات ہورہے ہیں تاہم طالبان نے اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد جلد پاکستان، افغانستان کا دوبارہ دورہ کریں گے

اشرف غنی کی حکومت کی مدت مئی میں ختم ہورہی ہے اور ان پر اگلے صدارتی انتخابات سے قبل عہدہ چھوڑنے کا دباؤ ہے۔

اشرف غنی نے نگراں حکومت کے مطالبات کو مسترد کردیا ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں صدارتی الیکشن 28 ستمبر کو متوقع ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں