جنسی ہراساں کیس: 11گواہوں کا علی ظفر کی حمایت میں بیان

میشا شفیع نے اپریل 2018 میں علی ظفر پر جنسی ہراساں کا الزام لگایا تھا—فائل فوٹوز: انسٹاگرام
میشا شفیع نے اپریل 2018 میں علی ظفر پر جنسی ہراساں کا الزام لگایا تھا—فائل فوٹوز: انسٹاگرام

گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے اداکار علی ظفر پر لگائے گئے جنسی ہراساں کے الزامات کو عدالت میں پیش ہونے والے تمام 11 گواہوں نے جھوٹا قرار دیتے ہوئے علی ظفر کی حمایت میں بیان دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لاہور میں 29 اور 30 مئی کو ہونے والی جرح کے دوران جیمنگ سیشن کے دوران جائے وقوع پر موجود تمام گواہوں کے مطابق میشا شفیع کے الزامات میں کوئی سچائی نہیں۔

یہ وہ 11 گواہان ہیں جو 22 دسمبر 2017 کو علی ظفر کے گھر پر ہونے والے جیمنگ سیشن کے دوران وہاں موجود تھے اور میشا شفیع نے اسی جگہ خود کو جنسی ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

میشا شفیع نے اپریل 2018 کو ایک ٹوئیٹ کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ علی ظفر نے انہیں جیمنگ سیشن کے دوران سب کے سامنے جنسی طور پر ہراساں کیا۔

جیمنگ سیشن کے دوران مجموعی طور پر 11 افراد موجود تھے جنہوں نے پہلے عدالت میں بیان حلفی جمع کرائے جانے سمیت عدالت کے سامنے پیش ہوکر بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔

گواہوں کی جانب سے دیے گئے بیانات پر میشا شفیع کے وکلاء نے 29 اور 30 کو گواہان سے جرح کی۔

گزشتہ روز 5 گواہوں سے جرح کی گئی تھی اور آج مزید گواہوں سے جرح کی گئی۔

سیشن جج امجد علی شاہ کی جانب سے ہونے والی سماعت کے دوران مزید گواہوں نے بھی علی ظفر کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ وہ جیمنگ سیشن میں موجود تھے اور وہاں کوئی جنسی ہراساں کا واقعہ پیش نہیں آیا۔

جیمنگ سیشن کے 11 گواہان میں 2 خواتین کنزہ منیر اور اقصیٰ علی بھی شامل تھیں جنہوں نے بھی میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں گلوکاروں سے چند فٹ کی دوری پر تھیں اور انہوں نے جنسی ہراساں کا کوئی کیس نہیں دیکھا۔

گواہاں میں گٹارسٹ اسد احمد، موسیقار کاشف چمن، کی بورڈ پلیئرجوشوا کیتھ، بیس پلئیر محمد علی، ڈرمر قیصر زین، گلوکارہ اقصیٰ علی، باقر عباس اور موسیقار محمد تقی سمیت دیگر شامل تھے۔

اسی کیس میں عدالت نے مزید 13 گواہوں کو آئندہ ماہ 11 جون کو جرح کے لیے طلب کرلیا۔

جن مزید گواہوں کو طلب کیا گیا ہے وہ دیگرسیشنز اور جگہوں پر موجود تھے۔

کیس میں عدالت کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں کی مجموعی تعداد 24 ہے، جن میں سے 11 گواہ جیمنگ سیشن کے تھے اور ان پر جرح مکمل ہوچکی۔

میشا شفیع- علی ظفر کیس

دونوں فنکاروں کے درمیان تنازع اپریل 2018 میں اس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے علی ظفر پر ایک ٹوئٹ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھااور دعویٰ کیا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا جب وہ 2 بچوں کی ماں اور معروف گلوکار بھی بن چکی تھیں۔

تاہم علی ظفر نے ان کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیا تھا۔

بعد ازاں میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کی محتسب اعلیٰ میں درخواست بھی دائر کی تھی اور اس کے جواب میں علی ظفر نے بھی گلوکارہ کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

اور دونوں کا یہی کیس لاہور کی سیشن کورٹ میں زیر سماعت ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو تین ماہ کے اندر گواہوں پر جرح کے بعد فیصلہ سنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

چند دن قبل سماعت میں پیش ہونے کے بعد علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ میشا شفیع نے انہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا۔

علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع پر منظم منصوبہ بندی کے الزامات لگائے جانے کے بعد گلوکارہ نے علی ظفر کو 200 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا اور ان سے 15 دن کے اندر معافی مانگنےکا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں میشا شفیع نے گواہوں سے جرح کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ الگ درخواست دائر کی تھی جس میں گواہوں سے جرح کے لیے وقت مانگا گیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 9 مئی کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے میشا شفیع کے وکلاء کو گواہوں سے جرح کرنے کے لیے 7 دن کی مہلت دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ کوشش کرکے گواہوں سے جرح ایک دن میں مکمل کی جائے اور اس کیس میں مزید متفرق درخواستیں دائر نہ کی جائیں۔

علاوہ ازیں میشا شفیع نے سیشن کورٹ میں سماعتیں کرنے والے پہلے جج پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا تھا اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جج تبدیل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

پہلے اس کیس کی سماعت سیشن جج شکیل احمد کرتے تھے جسے گلوکارہ کی درخوست پر تبدیل کیا گیا۔

ماضی میں میشا اور علی ظفر بہترین دوست تھے—فائل فوٹو: فیس بک
ماضی میں میشا اور علی ظفر بہترین دوست تھے—فائل فوٹو: فیس بک

تبصرے (0) بند ہیں