تیونس: سرکاری دفاتر میں نقاب پر پابندی عائد

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2019
نقاب پر پابندی خودکش حملوں کے بعد سیکیورٹی سخت کرنے کے پیش نظر سامنے آئی
— فائل فوٹو/اے ایف پی
نقاب پر پابندی خودکش حملوں کے بعد سیکیورٹی سخت کرنے کے پیش نظر سامنے آئی — فائل فوٹو/اے ایف پی

تیونس کے وزیر اعظم نے حال ہی میں ہونے والے خودکش حملوں کے پیش نظر سرکاری دفاتر میں مسلمان خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی عائد کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم یوسف شاہد نے سرکاری سرکلر پر دستخط کر دیئے جس کے تحت عوامی انتظامیہ اور اداروں کے دفاتر میں چہرہ چھپا کر داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ 27 جون کو شمالی افریقی ملک تیونس میں 2 خودکش دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 7 زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: تیونس: مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے 70 افراد جاں بحق

نقاب، جو آنکھوں کے علاوہ پورے چہرے کو ڈھانک دیتا ہے، پر پابندی خودکش حملوں کے بعد سیکیورٹی سخت کرنے کے پیش نظر سامنے آئی۔

وزارت داخلہ نے فروری 2014 میں انسداد دہشت گردی کے لیے اقدامات کرتے ہوئے پولیس کو نقاب پہنی خواتین پر خصوصی نظر رکھنے کی ہدایت کی تھی تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔

تیونس لیگ برائے دفاعِ انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ یہ پابندی عارضی ہے۔

تنظیم کے صدر جمال مسلم کا کہنا ہے کہ 'ہم لباس کی آزادی کے حق میں ہیں تاہم موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر تیونس اور پورے خطے میں اس فیصلے کی وجہ ہمیں نظر آتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: افریقی ممالک میں طوفان سے ہلاکتوں کی تعداد 700 سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ 'تیونس میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتے ہی اس پابندی کا خاتمہ کردیا جائے گا'۔

واضح رہے کہ نقاب سمیت دیگر اسلامی عقائد کو طویل عرصے سے تیونس پر حکمرانی کرنے والے صدر زین العابدین بن علی کے دور میں برداشت نہیں کیا جاتا تھا، تاہم 2011 میں انقلاب کے بعد یہ واپس عام ہوگئے تھے۔

2015 میں ہونے والے خونریز حملوں، جن میں سیکیورٹی فورسز اور سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، کے بعد تیونس میں اس پر دوبارہ پابندی کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں