جج ویڈیو اسکینڈل: میاں طارق جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2019
ملزم طارق محمود کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملزم طارق محمود کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی متنازع ویڈیو سے متعلق کیس میں مرکزی ملزم میاں طارق محمود کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔

میاں طارق محمود کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے بدھ کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے پاس تھے، جہاں آج انہیں ریمانڈ ختم ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے میڈیکل اور پیشرفت رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تفتیش کاروں کو میاں طارق محمود سے 4 جی ڈیوائس ملی ہے، جس کی فرانزک رپورٹ بھی مثبت آئی۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، جسمانی ریمانڈ منظور

تاہم اس دوران میاں طارق محمود نے عدالت کو بتایا کہ یہ ڈیوائس ایف آئی اے کی جانب سے برآمد نہیں کروائی گئی بلکہ ان کی جانب سے رضاکارانہ طور پر ایف آئی اے کو دی گئی۔

اس موقع پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ میاں طارق محمود نے دوران تفتیش اس اسکینڈل میں مبینہ طور پر دیگر لوگوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی، لہٰذا تحقیقاتی ایجنسی کو مزید تحقیقات کے لیے ریمانڈ میں توسیع چاہیے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی استدعا پر میاں طارق محمود کے وکیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ تحقیقات مکمل ہوچکی ہے اور مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کا بیرون ملک جانے کا تاثر درست نہیں ہے، میاں طارق محمود کا پاسپورٹ 2013 سے ایکسپائر ہے۔

ملزم کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب ملتان میں میاں طارق محمود کے گھر پر مسلسل چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ ان کا بیٹا کئی دنوں سے لاپتہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ایف آئی کو ملزم میاں طارق پر تشدد نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے میاں طارق کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

خیال رہے کہ جج ارشد ملک کی جانب سے میاں طارق محمود پر ’خفیہ طور پر غیر اخلاقی ویڈیو بنانے کا الزام‘ لگایا گیا ہے، جس ویڈیو کو بعد ازاں میاں نواز شریف کے حمایتی ناصر بٹ کی جانب سے جج کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور سابق وزیر اعظم کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے لیے ’دباؤ‘ ڈالا گیا۔

بعد ازاں یہ ویڈیو لیکس کا معاملہ رواں ماہ کے آغاز میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے سامنے لایا گیا اور انہوں نے جج ارشد ملک کی وہ مبینہ خفیہ ویڈیوز دکھائیں جس میں وہ ایک شخص کو یہ کہتے نظر آئے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلے کیے لیے انہیں ’بلیک میل‘ اور ’دباؤ‘ ڈالا گیا۔

اس ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنی پریس ریلیز میں اسے مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرلیں

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جمع کرائے گئے بیان حلفی میں دعویٰ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ جب رشوت اور دھمکیوں کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انہیں ’ملتان والی ویڈیو‘ کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

تمام معاملات کے بعد اسلام ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات واپس متعلقہ محکمے کو بھجوا دی تھیں، جس کے بعد وفاقی وزارت قانون نے انہیں کام کرنے سے روک دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں