پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں اپنی جماعت کے سینیٹرز کے کردار کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی (فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی) بنا دی۔

اس بارے میں جاری اعلامیے کے مطابق اس کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی، نیئر حسین بخاری، سعید غنی، صابر بلوچ اور فرحت اللہ بابر شامل ہیں جبکہ اگر ضرورت پڑی تو دیگر اراکین سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔

یہ کمیٹی پارٹی سینیٹرز کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو پہلے سے جمع کروائے گئے استعفوں سے متعلق بھی تجاویز تیار کرے گی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کی وزیر اعظم اور جہانگیر ترین سے الگ الگ ملاقات

اس حوالے سے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کو سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ پر سخت مایوسی کا اظہار کیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ جنہوں نے یہ گندہ کھیل کھیلا انہیں سامنے لایا جائے گا‘۔

اس کے علاوہ ’یہ بھی پتہ چلایا جائے گا کہ کیوں متحدہ اپوزیشن اکثریت میں ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو نہیں ہٹاسکی اور اگر اس معاملے میں کوئی پارٹی سینیٹر غلطی کا مرتکب اور پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی‘۔

پیپلزپارٹی کی اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں تمام صوبوں سے اراکین کو شامل کیا گیا ہے اور پارٹی کو امید ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے سینیٹرز کے معاملے کی تحقیقات کریں گی۔

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 26 جولائی کو کثیرالجماعتی کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے بعد اس تحریک کی قرارداد کو ایوان بالا میں جمع کروایا گیا تھا۔

اپوزیشن کی تحریک پر ردعمل دیتے ہوئے حکومتی اتحاد نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔

ان دونوں تحاریک پر یکم اگست کو سینیٹ اجلاس میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹنگ ہوئی تھی، جس میں اپوزیشن کو ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سینیٹ میں جماعتوں کی نمائندگی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 30 اراکین کے ساتھ اکثریت موجود تھی جبکہ پی پی پی 20 اور پی ٹی آئی 17 اراکین کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر تھی،ان کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 11، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے 6، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے 5، 5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس ایک، ایک رکن تھے، اس کے علاوہ 5 اراکین آزاد حیثیت میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 53 ووٹ درکار تھے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے راجا ظفر الحق نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کے وقت 64 اپوزیشن اراکین نے کھڑے ہوکر حمایت ظاہر کی تھی۔

تاہم جب خفیہ رائے شماری کے بعد نتائج آئے تو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر محض 50 ووٹ آئے تھے جبکہ اس کی مخالفت میں 45 ووٹ ڈالے گئے تھے اور 5 ووٹ مسترد ہوگئے تھے، لہٰذا یہ تحریک مطلوبہ 53 ووٹ لینے میں ناکام ہونے پر مسترد ہوگئی تھی۔

اس پورے عمل میں 100 اراکین نے حصہ لیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری تنویر ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ایوان میں حاضری یقینی نہ بناسکے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی جانب سے ووٹنگ کے عمل پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کے 2 سینیٹرز بھی ایوان میں نہیں آئے تھے۔

ساتھ ہی حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہوگئی تھی اور وہ بھی مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کرسکی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں