انڈونیشیا: اسلامی کونسل کے رکن کو ’زنا کاری‘ پر سرِ عام کوڑوں کی سزا

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2019
مخلص بن محمد کو مذہبی افسر نے عوامی پارک میں 28 مرتبہ کوڑے مارے—تصویر: اسکرین گریب
مخلص بن محمد کو مذہبی افسر نے عوامی پارک میں 28 مرتبہ کوڑے مارے—تصویر: اسکرین گریب

بندے آچے: ایک مذہبی تنظیم کے لیے کام کرنے والے انڈونیشی شہری کو مقامی حکومت کی جانب سے اسلامی قوانین پر عمل کرتے ہوئے زنا کے جرم میں کوڑوں کی سزا دے دی گئی۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذہبی افسر نے آچے علما کونسل (ایم پی یو) کے 46 سالہ رکن مخلص بن محمد کو عوامی پارک میں 28 مرتبہ کوڑے مارے۔

اس کے علاوہ مذکورہ شخص کے ساتھ جنسی فعل میں شامل خاتون کو بھی سرِ عام 23 کوڑوں کی سزا دی گئی۔

واضح رہے کہ آچے علما کونسل نے بندے آچے حکومت کو شرعی قوانین کا حالیہ مسودہ تیار کرنے میں رہنمائی بھی کی تھی تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سزا پانے والے مخلص بن محمد کا اس کونسل میں کیا عہدہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا: غیر ازدواجی تعلقات و ہم جنس پرستی پر سزاؤں کا نیا قانون تیار

مذکورہ سزا بندے آچے میں دی گئی جو انڈونیشیا کا واحد قدامت پسند صوبہ ہے جہاں شرعی سزائیں نافذ ہیں اور اسے 2001 میں خود مختاری دے دی گئی تھی۔

یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ بندے آچے میں چوری اور دھوکہ دہی سمیت متعدد جرائم کے لیے سرِ عام کوڑے اور چھڑیاں مارنے کی سزا دی جاتی ہے، یہ قوانین 2005 میں متعارف کروائے گئے تھے اور شہریوں کی اکثریت اس کی حمایت کرتی ہے۔

اِسی صوبے نے 2014 میں ہم جنسی پرستی کو بھی ناجائز قرار دے دیا تھا۔

اس ضمن میں ایک ضلعی عہدیدار حسینی وہاب نے بتایا کہ کوڑوں کی سزا اسلامی قوانین پر عمل کرنے حوالے سے عوام کے لیے یاد دہانی ہے۔

مزید پڑھیں: انڈونیشیا میں لڑکیوں کی شادی کے لیے نیا قانون منظور

انہوں نے یہ بتایا کہ مخلص بن محمد کا تعلق اب آچے علما کونسل سے نہیں اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چاہے وہ عالم ہو، امام ہو یا کوئی عام شہری، حکومت کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتتی۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیموں نے سرِ عام کوڑوں اور چھڑیوں کی سزا دینے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے جہاں مختلف مذہبی اور نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور اس ملک کو ایسی مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں جمہوریت اور اسلام ساتھ ساتھ نافذ ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی نے مذہبی عدم برداشت کو بڑھاوا دیا ہے۔


یہ خبر 2 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں