’بھارتی اکائی‘ بننے کے بعد مقبوضہ کشمیر اپنے پرچم، آئین سے محروم

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
صورتحال کے پیشِ نظر بھارتی فوج اور پولیس کے ہزاروں کی تعداد میں اہلکار وادی کی سڑکوں پر گشت کرتے رہے —تصویر: اے پی
صورتحال کے پیشِ نظر بھارتی فوج اور پولیس کے ہزاروں کی تعداد میں اہلکار وادی کی سڑکوں پر گشت کرتے رہے —تصویر: اے پی

سری نگر: بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کے بعد سخت سیکیورٹی کی موجودگی اور عوامی غم و غصے کے باوجود وادی پر براہِ راست وفاقی حکومت کی حکمرانی کا آغاز 31 اکتوبر سے ہوگیا، جس کے بعد متنازع علاقہ اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوگیا۔

خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارتی پارلیمان نے مقبوضہ کشمیر کو 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی تھی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد کے پیشِ نظر وادی میں جمعرات کو کسی قسم کا بھارت مخالف احتجاج یا حملہ روکنے کے لیے سیکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔

صورتحال کے پیشِ نظر بھارتی فوج اور پولیس کے ہزاروں کی تعداد میں اہلکار وادی کی سڑکوں پر گشت کرتے رہے جبکہ زیادہ تر دکانیں، اسکول اور کاروباری مراکز اگست کے مہینے سے ہی بند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی تقسیم پر عملدرآمد، سڑکیں صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں

اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کا انتظام و انصرام گورنر کے پاس ہوتا تھا، بعدازاں اس عہدے کو لیفٹیننٹ گورنر سے تبدیل کردیا گیا اور اس عہدے کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مقرر کردہ نئے سول ایڈمنسٹریٹڑ جی سی مرمو نے جمعرات کو سنبھال لیا۔

بھارتی حکومت نے 1947 میں برِ صغیر کی تقسیم سے بھی پہلے سے قائم ریاستی ریڈیو اسٹیشن کا نام بھی ریڈیو کشمیر سری نگر سے تبدیل کر کے آل انڈیا ریڈیو سری نگر کردیا۔

اس تمام تر صورتحال میں سب سے نمایاں تبدیلی مقبوضہ کشمیر کے پرچم اور آئین کی غیر موجودگی تھی، جسے متنازع علاقے کی نئی حیثیت کے تحت ختم کردیا گیا۔

تاہم کشیری عوام کو سب سے بڑا خظرہ وادی سے تعلق نہ رکھنے والے بھارتیوں کی جانب سے زمین خریدنے کا ہے جبکہ اس سے قبل آئین میں کشمیریوں کے خصوصی مالکانہ حقوق کو محفوظ رکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں جاری مصائب و آلام کی داستان

اس ضمن میں بھارتی رکنِ پارلیمنٹ اور ریٹائرڈ کشمیری جج حسنین مسعودی نے کہا کہ ’جمعرات کو ہر چیز تبدیل ہوگئی، ایک ریاست سے ہم ایک قصبے میں بدل گئے ہیں‘۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی نظر بند سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو مزید تنہا کرنے سے قبل بھارتی حکومت کو ان کو شامل کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیے گئے پیغام میں کہا کہ ’بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے انہیں مصیبت میں لاکھڑا کیا ہے، اگر آپ انہیں اپنا سمجھتے ہیں تو ان سے رابطہ کریں اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔

چین کا ردِ عمل

بھارتی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو وفاقی اکائی میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے نفاذ پر چین نے بھی اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے اس اقدام کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت کا اقدام ’کسی صورت موثر نہیں‘۔

بیجنگ میں ایک نیوز بریفنگ دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے کہا کہ ’وفاقی اکائی میں تبدیل کیے گئے جموں کشمیر اور لداخ میں چین کا بھی کچھ حصہ شامل ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو 'پتھراؤ کے الزام' میں گرفتار کیا گیا

انہوں نے کہا کہ چین اس فیصلے کی سختی سے مذمت اور مخالفت کرتا ہے، بھارت یکطرفہ طور پر مقامی قانون اور انتطامی معاملات کو تبدیل کر کے چینی خودمختاری اور مفاد کو چیلنج کررہا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کامزید کہنا تھا کہ ’یہ غیر قانونی اور کالعدم ہے، یہ اقدام اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا کہ متعلقہ علاقہ چین کے ماتحت ہے اور اس سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چین بھارت پر زور دے رہا تھا کہ باہمی سمجھوتوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے سابقہ علاقائی خودمختاری کا احترام کرے اور چین کے ساتھ سرحدی مسائل کے مناسب حل کیے ٹھوس اقدامات کے ساتھ سرحدی علاقے میں امن کی فضا قائم کرے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال

یاد رہے کہ بھارت نےمقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج بھیج کر لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ خطے کی اہم سیاسی شخصیات کو قید کرنے کے بعد 5 اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

آرٹیکل 370 کے نفاذ کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: '5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 722 احتجاجی مظاہرے ہوئے'

تاہم زمینی حقائق کے مطابق عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں اور پولیس نے ہتھیاروں کی برآمدگی کا بھی دعویٰ کیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں سختی

علاوہ ازیں 70 لاکھ کی آبادی پر مشتمل وادی میں طویل عرصے کی بندش کے بعد ٹیلی فون سروس بحال کردی گئی تھی اور س دوران بھی بھارت کا اصرار تھا کہ صورتحال ’معمول کے مطابق‘ ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سخت اقدامات کرنے کے حوالے سے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں