ایف بی آر کی تنظیم نو کیلئے 3 مشاورتی کمیٹیاں قائم

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2019
وزیراعظم سیکریٹریٹ میں 3 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان ریونیو اتھارتی کے مجوزہ ڈھانچے کی منظوری دی گئی تھی—تصویر:فیس بک
وزیراعظم سیکریٹریٹ میں 3 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان ریونیو اتھارتی کے مجوزہ ڈھانچے کی منظوری دی گئی تھی—تصویر:فیس بک

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی نے ٹیکس اتھارٹی کی تنظیم نو سے متعلق تجاویز مرتب کرنے کے لیے 3 اعلیٰ سطح کی مشاورتی کمیٹیاں قائم کردیں تاکہ اصلاحات کو خصوصی شکل دی جاسکے۔

ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی کے ساتھ اِن لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے افسران کی ملاقات کے 3 روز بعد کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، ملاقات میں افسران نے تنظیم نو کے مجوزہ اقدام کو 2 روز میں واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

چنانچہ آئی آر ایس افسران کے مطالبوں پر عملدرآمد کے لیے چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹیوں کو ہدایت کی کہ 18 نومبر تک اپنی تجاویز پیش کریں تاہم انہوں نے کسٹم گروپس کے لیے ایسی کوئی کمیٹی بنانے کی ہدایت کی نہیں کی جو گریڈ 21 کی اضافی 38 نشستیں دیے جانے پر حکومتی تجاویز سے خوش نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر افسران کی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کی مخالفت

چیئرمین ایف بی آر کے احکامات کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والی مشاورتی کمیٹی کی سربراہی چیف کمشنر لارج ٹیکس پیئر یونٹ (ایل ٹی یو) ڈکٹر الہٰی میمن کریں گے جبکہ دیگر 4 اراکین میں چیف کمشنرز عامر علی خان تالپور، ڈاکٹر آفتاب امام، شاہد اقبال بلوچ اور بدرالدین احمد قریشی شامل ہیں۔

اسی طرح لاہور کمیٹی کی سربراہی چیف کمشنر سید ندیم حسین رضوی کریں گے جبکہ دیگر 2 اراکین میں عاصم ماجد خان اور احمد شجاع خان شامل ہیں۔

اسلام آباد-راولپنڈی کمیٹی کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن عاصم احمد ہیں اور دیگر 3 اراکین میں چیف کمشنرز ڈاکٹر بشیر اللہ خان، ڈاکٹر شمس الہادی اور محمد نصیر بٹ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام کی تنظیم نو کا فیصلہ

اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر نے ان کمیٹیوں کے لیے ٹرم آف ریفرنسز کی بھی منظوری دے دی اور ان کمیٹیوں کو وفاقی حکومت سے منسلک، نیم خودمختار یا خودمختار ادارے کی حیثیت سے ٹیکس اتھارٹی کی مستقبل کی شکل وضع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ یہ کمیٹیاں جن معاملات کو دیکھیں گی ان میں بھرتیاں، گنجائش، صلاحیت، معاوضہ، مالی خود مختاری تنظیمی ڈھانچہ اور کام کا طریقہ کار شامل ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کے لیے کام کرنے والی کمیٹی نے پیشگی کام صحیح طور نہیں کیا اور اسٹیک ہولڈرز کا ردِ عمل لیے بغیر مجوزہ اصلاحات کی پریزینٹیشن دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر ٹیکس اصلاحات کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ بن گیا

خیال رہے کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں 3 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان ریونیو اتھارتی کے مجوزہ ڈھانچے کی منظوری دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ اس اصلاحاتی عمل کے تحت حکومت نے ملک بھر میں قائم ریجنل ٹیکس آفیسز (آر ٹی اوز) اور لارج ٹیکس پیئر (ایل ٹی یوز) کی سربراہی کرنے والے 23 چیف کمشنر کے عہدے ختم کرنے کی تجوزیز دی تھی۔

اس اقدام کے نتیجے میں 174 کمشنرز کو براہِ راست رکنِ اِن لینڈ ریونیو آپریشنز کو رپورٹ کرنا ہوگا۔

اس عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے ایف بی آر چیئرمین نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کمیٹیوں کے سربراہ گریڈ 16 اور اس سے نچلے درجے کے ملازمین کو بھی شامل کریں تاکہ کمیٹیوں کی جانب سے مجوزہ اصلاحات میں ان کی رائے بھی شامل ہو۔


یہ خبر 9 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں