ایف اے ٹی ایف کے تحفظات کے خاتمے کیلئے غیرمنظم شعبوں کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019
این ایف سی سی نے وکلا، لیگل ایڈوائزر اور لا فرمز کے لیے وزارت قانون و انصاف کو ریگولیٹر نامزد کیا — فائل فوٹو: ایف ایس سی جی او ڈاٹ کے آر
این ایف سی سی نے وکلا، لیگل ایڈوائزر اور لا فرمز کے لیے وزارت قانون و انصاف کو ریگولیٹر نامزد کیا — فائل فوٹو: ایف ایس سی جی او ڈاٹ کے آر

اسلام آباد: حکومت نے معیشت کے تمام غیر منظم شعبوں کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تحفظات کے خاتمے کے لیے ایک عبوری ریگولیٹری نظام میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ نیشل ایف اے ٹی کوآرڈینیشن کمیٹی (این ایف سی سی) کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یکم دسمبر تک ایف اے ٹی ایف کے تمام ٹاسکس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں 12 رکنی این ایف سی سی تشکیل دی تھی۔

مزید پڑھیں: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا پاکستانی کوششوں پر اظہارِ اطمینان

اس حوالے سے ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ تجویز کردہ ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام پر اہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اختلاف رائے کے تنازع میں وفاقی حکومت نے ریئل اسٹیٹ کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو عارضی ریگولیٹر کے طور پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر جیولرز، زیورات، ہیروں اور قیمتی پتھروں کے ریگولیٹر کے طور پر بھی کام کرے گا کیونکہ اس وقت اس شعبے کے لیے کوئی ریگولیٹر موجود نہیں ہے۔

اسی طرح این ایف سی سی نے وکلا، لیگل ایڈوائزر اور لا فرمز کے لیے وزارت قانون و انصاف کو ریگولیٹر نامزد کیا ہے۔

علاوہ ازیں این ایف سی سی نے آڈٹ اوورسائٹ بورڈ کو چارٹرڈ اکاؤنٹس، اکاؤنٹنٹس، فنانشل کنسلٹنٹس اور اکاؤنٹنگ سے وابستہ دیگر گروہوں کے ریگولیٹر کے طور پر کردار ادا کرنے کا اختیار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا 'دہشتگردی سے متعلق سفر' کی مالی معاونت کو جرم قرار دینے پر زور

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کو پاکستان پوسٹ اور قومی بچت سے مالیاتی ٹرانزیکشنز ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

عہدیداران نے کہا مذکورہ عبوری ریگولیٹری انتظامات کا فیصلہ پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں ملنے والی رائے اور مشوروں کی بنیاد پر کیا گیا جنہوں نے پاکستان کو آئندہ برس فروری تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے شرکا نے مذکورہ غیرمنظم شعبوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جن میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے ذرائع کے طور پر استعمال ہونے کا بہت زیادہ خطرہ موجود ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے اراکین کی جانب سے ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں اتنے اہم شعبے ریگولیٹرز کے بغیر کام کررہے تھے اور ان شعبوں سے قومی خطرات کے خاتمے کے لیے باقاعدہ نظام لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر برائے اقتصادی ڈویژن حماد اظہر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی این ایف سی سی وزارت خزانہ، خارجہ اور داخلہ کے وفاقی سیکریٹریز پر مشتمل ہے جبکہ اس میں مختلف اداروں اور ریگولیٹرز کے سربراہان بھی شامل ہیں۔

منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف کارروائی کرنے والوں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ممبر (کسٹمز) اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ(ایف ایم یو)کے ڈائریکٹر جنرل شامل ہیں۔

علاوہ ازیں این ایف سی سی میں ملٹری جنرل ہیڈکوارٹرز کے 3 سینئر عہدیداران بھی شامل ہیں۔

ایک ہفتے قبل ہونے والے این ایف سی سی کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں غیر دستاویزی رقوم کا بہاؤ دیکھا گیا تھا۔

صوبائی و وفاقی حکام اور ریئل اسٹیٹ ریگولیٹرز کی کوآرڈینیشن پر کئی مرتبہ تبادلہ خیال کیا گیا تھا لیکن اس طریقہ کار میں وقت لگتا جو آئین اور متعلقہ قوانین میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے آزاد اختیارات پر اثر انداز ہوتا۔

ذرائع نے کہا کہ لہذا قانونی چیلنجز کے حل تک ایف بی آر کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر کا ریگولیٹر مقرر کرنا آسان معلوم ہوا، ماضی میں دستاویزات اور ٹیکس کے مقاصد کے تحت ریئل اسٹیٹ کے اہم اراکین کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ایف بی آر کو یہ اختیار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں دستاویزی اور غیر دستاویزی سالانہ کاروبار کا تخمینہ 500 ارب کے قریب ہے، اس فیصلے سے ایف بی آر کو ٹیکس سے متعلق مقاصد حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان پوسٹ، کوریئر کمپنیوں اور قومی بچت اسکیموں کے سینئر حکام عبوری مدت کے دوران ایف ایم یو سے تعاون کریں گے تاکہ ایف اے ٹی ایف کے اہداف مکمل کیے جاسکیں۔

اس حوالے سے کام شروع کیا جاچکا ہے اور وزارت پوسٹل سروسز، وزارت خارجہ، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کے تحت باقاعدہ ریگولیٹری فریم ورک بنایا جائے گا جس کے لیے 31 دسمبر 2019 کی ڈیڈلائن طے کی گئی ہے۔

فریم ورک کی تکمیل کے بعد اسے جنوری 2020 میں جائزے کے لیے انٹرنیشنل کنٹری رسک گائیڈ کو ارسال کیا جائے گا۔

عہدیدار نے کہا کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات اور اپنی حکمت عملی سے متعلق رپورٹ ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسیفک جوائنٹ ورکنگ گروپ میں 7 دسمبر تک جمع کروائے گا۔

جس کے بعد ضرورت پڑی تو جوائنٹ ورکنگ گروپ 17 دسمبر تک وضاحتیں طلب کرے گا اور پاکستان کو 7 جنوری تک ورکنگ گروپ کے سوالات پر مبنی حتمی رپورٹ جمع کروانی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں