لیبیا کے متحارب گروپ مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، نمائندہ اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
غسان سلامہ نے تیل کی پیداوار کو بحال کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کو تعاون کرنے پر زور دیا— فوٹو:رائٹرز
غسان سلامہ نے تیل کی پیداوار کو بحال کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کو تعاون کرنے پر زور دیا— فوٹو:رائٹرز

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے دعویٰ کیا ہے کہ لیبیا میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار گروپ مستقل جنگ بندی کا مقصد لیے جنیوا میں مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی غسان سلامہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں طرف اسلحے کی پابندی کو توڑا گیا اور لیبیا میں اب بھی سمندر اور فضائی راستوں سے اسلحہ پہنچ رہا ہے۔

خیال رہے کہ لیبیا میں گزشتہ تقریباً ایک سال سے کمانڈر خلیفہ حفتر دارالحکومت طرابلس کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت ہے اور وزیر اعظم کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔

ترکی اور روس کی جانب سے 12 جنوری کو کیے گئے صلح کے مطالبے اور 19 جنوری کو برلن میں لیبیا کے حوالے سے منعقدہ عالمی اجلاس کے مطالبے کے باوجود لیبیا میں جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔

مزید پڑھیں:لیبیا: متحارب گروپس کے سربراہان کی عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت متوقع

رپورٹ کے مطابق طرابلس میں منعقدہ مذاکرات میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کی فورسز اور خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کے 5،5 اراکین شامل ہوئے۔

اقوام متحدہ کے نمائندے اور سفارت کاروں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمانڈر حفتر کو متحدہ عرب امارات، مصر، اردن اور روس سمیت متعدد ممالک کا تعاون حاصل ہے جبکہ جی این اے کی ترکی مدد کر رہا ہے۔

غسان سلامہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘لیبیا میں موجود اسلحے کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے اور میں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ اسلحے کی پابندی اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے قرارداد منظور کی جائے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ روز جنیوا میں براہ راست مذاکرات سے گریز کرنے والے دونوں گروپوں نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ لیبیا میں پائیدار اور مستقل جنگ بندی کے لیے حائل رکاوٹوں کو کم کریں گے’۔

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ ‘ہم نے گزشتہ روز ان سے مذاکرات شروع کیے تھے اور ایجنڈے میں ایک طویل فہرست تھی اور اس میں اتفاق رائے کا جز سب سے اہم تھا اور اس صلح کو مستقل جنگ بندی کے لیے ایک معاہدے میں ڈھالنے کی کوشش بھی اہم تھی’۔

یہ بھی پڑھیں:ترک صدر کا لیبیا کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنے کا اعلان

یاد رہے کہ کمانڈر خلیفہ حفتر نے 2014 میں خانہ جنگی کے شکار لیبیا میں اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کیے گئے امن منصوبے کو ماننے سے انکار کردیا تھا جس سے مغربی اور مشرقی لیبیا کی تقسیم مزید گھمبیر شکل اختیار کرگئی تھی۔

دوسری جانب جی این اے نے 2016 میں اقوام متحدہ کے سابقہ امن منصوبے کو تسلیم کیا تھا جبکہ حفتر اور ان کے حامیوں نے اس کو مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کو 2011 میں حکومت سے الگ کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی اور خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اور تیل کی دولت رکھنے والا ملک تباہی سے دوچار ہوا۔

رپورٹ کے مطابق خلیفہ حفتر کے جنگجوؤں نے 2019 کے اواخر میں شدید حملے شروع کیے تھے اور برلن کانفرنس سے قبل ہی آئل فیلڈ اور بندرگاہوں میں رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کے نتیجے میں تیل کی پیداوار میں تقریباً 10 لاکھ بیرل روزانہ کی کمی ہوئی۔

تیل کی پیداوار میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے ایک سوال پر غسان سلامہ نے کہا کہ یہ بڑا مسئلہ ہے اور زور دیتے ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں تیل کی پیداوار شروع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں پر تعاون کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں