ترک صدر کا لیبیا کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنے کا اعلان

26 دسمبر 2019
ترک صدر طلب اردوان نے کہا کہ قانون سازی کے بعد فوج کو لیبیا بھیج دیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
ترک صدر طلب اردوان نے کہا کہ قانون سازی کے بعد فوج کو لیبیا بھیج دیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تریپولی کی درخواست پر آئندہ ماہ لیبیا میں اپنی فوج بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔

لیبیا کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت مشرقی لیبیا میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جنرل خلیفہ ہفتر کے خلاف برسرپیکار ہے جہاں جنرل ہفتر کو متحدہ عرب امارات، روس اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: لیبیا: جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 264 سے تجاوز کرگئی

گزشتہ ماہ ترکی نے لیبیا کی حکومت کے ساتھ دو معاہدے کیے تھے جن میں سے ایک سیکیورٹی اور فوجی تعاون پر مبنی تھا جبکہ دوسرا مشرقی بحیرہ روم میں میری ٹائم سرحدوں کے حوالے سے تھا۔

اردوان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دعوت ملی ہے جسے ہم قبول کرتے ہیں، ہم لیبیا فوج بھیجنے کا بل جلد از جلد پارلیمنٹ میں پیش کریں گے جس کے بعد 8سے9 جنوری تک قانون ہو جائے گی اور ہم فوج بھیج سکیں گے۔

ترکی کئی ہفتوں سے اس نئی مہم کے حوالے سے عندیہ دے رہا تھا اور اس مشن کے آغاز کے ساتھ ہی ترکی کی فوجی مہمات میں مزید توسیع ہو جائے گی جہاں تین ماہ قبل ہی ترکی نے شمال مشرقی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے ہتھیار کی ترسیل پر پابندی کے باوجود ترکی پہلے ہی لیبیا کو ہتھیار فراہم کر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019ء: مشرق وسطیٰ میں اس سال بھی کوئی بہتری نہیں آئی

بدھ کو اردوان نے تیونس کا دورہ کیا تھا جس میں تیونس سے پڑوسی ملک لیبیا میں سیزفائر کے لیے تعاون سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت کی گئی اور جمعرات کو دونوں ملکوں نے لیبیا کی عالمی سطح پر منظور شدہ حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

روس کے ساتھ کشیدگی

ادھر ترکی کی جانب سے لیبیا میں ممکنہ فوجی امداد پر روس نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر ترک صدر نے روس کی جانب سے جنرل ہفتر کی امداد پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔

انہوں نے کہا کہ ہفتر کی مدد کے لیے 2000ویگنر جنگجوؤں کے ساتھ روس خود لیبیا میں موجود ہے، کیا انہیں سرکاری حکومت نے بلایا تھا؟ نہیں۔ یہ سب ہفتر کی مدد کر رہے ہیں جبکہ ہم نے ایک قانونی حکومت کی جانب سے دعوت کو قبول کیا ہے، ہم دونوں میں یہی فرق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں