لال مسجد کا تنازع تیسرے روز بھی برقرار

اپ ڈیٹ 09 فروری 2020
اسلام آباد انتظامیہ اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان بیک ڈور مذاکرات گزشتہ روز کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے — فوٹو: محمد عاصم
اسلام آباد انتظامیہ اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان بیک ڈور مذاکرات گزشتہ روز کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے — فوٹو: محمد عاصم

اسلام آباد انتظامیہ اور لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز کے درمیان بیک ڈور ہونے والے مذاکرات کے ایک روز بعد بھی تنازع اپنی جگہ برقرار ہے اور کشیدگی تیسرے روز میں داخل ہوچکی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر تنازع کا آغاز ہوا تھا جب مولانا عبدالعزیز نے سرکاری مسجد میں داخل ہو کر اس کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے اور پولیس کی موجودگی میں ان کے حامیوں نے نعرے بازی بھی کی تھی۔

واضح رہے کہ مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں سیکڑوں طالبات کے ساتھ موجود ہیں جبکہ پولیس نے مسجد کو گھیر رکھا ہے اور احاطے کے باہر باڑ لگا دی ہے۔

یاد رہے کہ آج بھی مولانا عبدالعزیز کی جانب سے اسلام آباد میں 3 اہم مدارس، جامعہ فریدیہ، جامعہ رشیدیہ اور جامعہ محمدیہ، سے رابطہ کیا گیا تھا اور انہیں لال مسجد کے باہر احتجاج کے لیے طلبہ کی کثیر تعداد بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن مدارس نے طلبہ کو بھیجنے سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ

اس حوالے سے جامعہ محمدیہ کے پرنسپل اور وفاق المدارس العربیہ اسلام آباد کے سربراہ مولانا ظہور علوی نے علما کے وفد سے ملنے سے انکار کیا جبکہ ان کے بیٹے مولانا تنویر علوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ‘یہ وفاق کی واضح پالیسی ہے کہ طلبہ صرف تعلیم حاصل کریں گے اور کسی بھی قسم کی سیاست اور دیگر اقدامات میں حصہ نہیں لیں گے’۔

اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی انتظامیہ اور لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز کے درمیان ہونے والے بیک ڈور مذاکرات تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور اس حوالے سے وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے معاملے کو سنجیدہ قرار دیا تھا۔

تنازع کے خاتمے کے لیے کالعدم اہل سنت والجماعت کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے اور سرکاری مسجد کے باہر ملاقات کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا گیا تھا جبکہ سیکیورٹی حکام نے اسلام آباد کی انتظامیہ سے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ملاقات کی۔

تاہم مولانا عبدالعزیز کے حامیوں اور انتظامیہ کی جانب سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے باعث اس موقع پر دونوں ہی فریقین پیچھے ہٹ گئے۔

یاد رہے کہ مولانا عبدالعزیز 2 ہفتے قبل سرکاری مسجد میں واپس آئے تھے اور مسجد کے خطیب ہونے کا اعلان دہرایا تھا، صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب سیکڑوں طالبات نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 میں قائم جامعہ حفصہ میں داخل ہو کر اس کی سیل توڑ دی تھی۔

اس کے علاوہ نمازوں کے بعد انہوں نے جہاد اور شریعہ سے متعلق نظمیں بھی سنانا شروع کردی تھیں۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ‘سنائی جانے والی نظمیں جارحانہ اور اشتعال انگیز نہیں اگر ان کا موازنہ دھرنے میں سنائی جانے والی موسیقی اور رقص سے کیا جائے۔

انہوں نے موجودہ حکومت کا سابق آمر پرویز مشرف سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیشہ ایک راستہ رہتا ہے، لیکن یہ حکومت پرویز مشرف کی حکومت سے زیادہ نادان اور ظالم ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں خطبے کا دوبارہ آغاز کریں گے

مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ سپریم کورٹ کے 2007 کے فیصلے کو نافذ کرنا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ لال مسجد نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی وہ طالبات، جو جامعہ حفصہ میں داخل ہوچکی ہیں۔

مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ 'وہ کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتے'۔

بعد ازاں اہل سنت والجماعت کا وفد اپنے اسلام آباد کے صدر حفیظ نظیر کے ساتھ لال مسجد آیا اور مسجد کے باہر تعینات افسران سے ملاقات کی، وفد نے اسسٹنٹ کمشنر کو اپنی حمایت اور معاملے کے پُر امن حل کی یقین دہانی کروائی۔

اسی اثنا میں اسلام آباد میں قائم دیو بندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 3 مدارس۔ جامعہ فریدیہ، جامعہ رشیدیہ اور جامعہ محمدیہ، نے مولانا عبدالعزیز کی درخواست پر طلبہ کو بھیجے سے انکار کردیا، ان طلبہ کو لال مسجد کے باہر احتجاج کے لیے بلایا گیا تھا۔

مولانا کے 25 سے 30 حامیوں، جنہیں لال مسجد میں داخلے سے روکا گیا تھا، نے مسجد کے سامنے سڑک پر نمازیں ادا کیں، بعد ازاں انہوں نے جہاد اور شہادت کے حق میں نعرے لگائے اور ان نعروں کے جواب میں مدرسے میں موجود طالبات نے نعروں کا جواب دیا۔

بعد ازاں پولیس نے ان کے جانب بڑھنا شروع کیا جس کے نتیجے میں طلبہ اور مسجد کے باہر موجود نمازی وہاں سے غائب ہوگئے۔

اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مساجد کمیٹی کے چیئرمین چوہدری عبدالستار کا کہنا تھا کہ مسجد کے لیے جگہ مختص ہونے کے بعد کسی کو ٹریفک میں خلل ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں