مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ

اپ ڈیٹ 08 فروری 2020
وفاقی دارالحکومت کی نتظامیہ نے مسجد کے باہر علاقے کا محاصرہ کرلیا —فائل فوٹو: فیس بک
وفاقی دارالحکومت کی نتظامیہ نے مسجد کے باہر علاقے کا محاصرہ کرلیا —فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز سرکاری ملکیت کی مسجد پر قابض ہوکر خود وہاں کا امام ہونے کا دعویٰ کرکے گزشتہ 2 حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے صبر کو آزما رہے ہیں۔

ایسی صورتحال کہ جب حکام دیگر مسائل میں مصروف نظر آرہے تھے اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری (آئی سی ٹی) کی انتظامیہ نے امام مسجد یا ان کے نائب کا نوٹفیکیشن جاری کرنے میں سستی دکھائی تو ایسے میں مولانا عبدالعزیز 2 ہفتے قبل دوبارہ مسجد میں داخل ہوگئے۔

تاہم اس وقت وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے مسجد کے باہر علاقے کا محاصرہ کررکھا ہے اور مولانا عبدالعزیز، طالبات کے ساتھ اندر بند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لال مسجد کے خطیب کو ہٹادیا گیا، مولانا عبدالعزیز کے داخلے پر بھی پابندی

کشمکش کی اس صورتحال میں دونوں فریقین میں سے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔

ادھر ممکنہ طور پر حکام کا ردِ عمل جاننے کے لیے انہوں نے گزشتہ جمعے کا خطبہ دیا تھا لیکن ان کے سابق طالبعلم حافظ احتشام احمد کی جانب سے متعدد مرتبہ خبردار کرنے کے باوجود اسے نظر انداز کردیا گیا۔

خیال رہے کہ حافظ احتشام احمد لال مسجد شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

حافظ احتشام احمد کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی تھی کہ ہارون رشید جنہیں پہلے سیکیورٹی اہلکاروں نے اٹھا لیا تھا، انہوں نے لال مسجد کے نائب خطیب کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کیا ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: لال مسجد کا ‘مسمار جامعہِ حفصہ’ کے پلاٹ پر حق ملکیت کا دعویٰ

تاہم معاملے کی سنگینی میں اس وقت اضافہ ہوا جب جمعرات کو جامعہ حفصہ(جی-7) کی تقریباً 100 طالبات نے سیکٹر ایچ-11 کے مدرسے (جامعہ حفصہ) کی مقفل عمارت پر دھاوا بولا۔

اس کے نتیجے میں دارالحکومت کی انتظامیہ کے افسران مولانا عبدالعزیز سے ملاقات کے لیے لال مسجد پہنچے لیکن مذاکرات اس لیے بے نتیجہ رہے کہ مولانا کا اصرار تھا کہ وفاقی وزیر کے عہدے کی سطح کا کوئی عہدیدار ان سے بات چیت کرے۔

مسجد سے موبائل فون کے ذریعے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ سب وہی غلطی دہرانے پر کمر بستہ ہیں، یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی عزت نہیں کررہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ سے گریزاں ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’امامت سے پہلے جامعہ حفصہ کی غیرقانونی تعمیر پر بات ہونی چاہیے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ہمیں دوبارہ آپریشن کرنے کی دھمکی کے ساتھ ایچ-11 میں موجود جامعہ حفصہ خالی کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دی تھی جبکہ خوراک کی فراہمی بھی روک دی گئی ہے لیکن ہم اسلام کے لیے ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں'۔

واضح رہے کہ مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد خالی کرنے کا انتباہ دینے کے بعد جمعرات کی رات سے علاقہ بند کردیا گیا تاہم سخت پابندیوں کے تحت شہریوں کو جمعے کی نماز کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تھی۔

اس کے لیے تمام نمازیوں کو پولیس کے ناکے پر قومی شناختی کارڈ جمع کروانا تھا جو انہیں نماز سے واپسی پر واپس کردیا گیا۔

دوسری جانب مولانا عبدالعزیز نے جمعے کا اشتعال انگیز خطبہ دے کر اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھا جس میں بس ریاستی حکام کو اسلام کی حقیقی پیروی نہ کرنے والے اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے قرار دینے کی کسر رہ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: جامعہ حفصہ کو پارک کی زمین پر اپنی تعمیرات رضاکارانہ طور پر گرانے کی ہدایت

تاہم نماز جمعہ کے بعد کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ صرف خوراک فراہم کرنے کی اجازت اس صورت میں تھی کہ اندر سے کوئی باہر آ کر اسے وصول کرے۔

اسی حوالے سے ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’جمعے کے روز 2 مرتبہ کھانا آیا، خواتین مسجد کی چھت پر بھی دکھائی دیتی ہیں اور وہ کھانا لینے کے لیے باہر بھی آسکتی ہیں لیکن ہم کسی کو اندر جانے نہیں دے رہے کیوں کہ اس طرح کوئی ہتھیار لے کر جاسکتا ہے‘۔

اس ضمن میں کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 2 ماہ قبل عامر صدیقی کے تبادلے کے بعد سے لال مسجد میں کوئی خطیب اور نائب خطیب نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ مولانا عبدالعزیز اور ان کا گروپ محکمہ اوقاف کے نامزد کردہ امام کو دھمکیاں دیتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: شہدا فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر پابندی عائد

ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ دوبارہ مسجد کے خطیب بننا چاہتے ہیں اور جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے زمین کا بڑا حصہ اور 25 کروڑ روپے بھی چاہتے ہیں اس کے ساتھ انہیں ملحقہ اولڈ چلڈرن لائبریری کے پلاٹ کا قبضہ بھی چاہیے۔

عہدیدار نے کہا کہ ’سب سے پہلے ہم پُرامید ہیں کہ وہ 2 سے 3 روز میں یہ جگہ چھوڑ دیں گے، اگر مولانا عبدالعزیز اپنی حرکت پر ڈٹے رہے تو حکام جی-7 کے جامعہ حفصہ کو سودے بازی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ جامعہ حفصہ کی تقریباً یہ تمام جگہ جہاں مولانا موجود ہیں، قدرتی پانی کے ذخیرے کو بند کر کے قبضہ کی گئی زمین پر تعمیر کی گئی تھی۔


یہ خبر 8 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں