اسرائیل نے برآمدات پر پابندی لگا کر فلسطین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز کردیا

09 فروری 2020
رکن اقوام متحدہ نے کہا کہ امریکی فیصلے کے بعد تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے—فوٹو: میڈل ایسٹ مانیٹر
رکن اقوام متحدہ نے کہا کہ امریکی فیصلے کے بعد تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے—فوٹو: میڈل ایسٹ مانیٹر

اسرائیل نے امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کردہ متنازع امن منصوبے کے بعد فلسطینی مصنوعات کی برآمدات پر پابندی لگا کر تجارتی جنگ کا آغاز کردیا۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے وزیر زراعت ریاض العطاری نے بتایا کہ فلسطینی مصنوعات اردن کے راستے عالمی منڈی تک پہنچائی جاتی ہیں تاہم اسرائیل نے تمام برآمدات کنندگان اور متعلقہ فریقین کو مطلع کیا کہ فلسطینی زراعت کی اردن کے راستے برآمدات پر پابندی ہوگی۔

مزید پڑھیں: او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا

عالمی میڈیا کے مطابق تل ابیب حکومت کی جانب سے فلسطینی پیداوار کی برآمد پر پابندی کا آغاز ہوچکا ہے۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کی وزارت اقتصادیات نے وفا کے ذریعے جاری ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطین کی زرعی مصنوعات سے بھرے متعدد ٹرک نے اردن کی کراسنگ لائن سے واپس بھیج دیے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے درمیان واحد راستہ ہے جس پر اسرائیلی فورسز کا قبضہ ہے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کی آمد اور سامان کی ترسیل و اخراج کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندی میں زیتون کا تیل، کھجوریں اور ادویات بنانے کے لیے جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔

فلسطین دنیا کے 100 منڈیوں میں 60 کے لگ بھگ زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔

اسرائیل متنازع امریکی امن منصوبے کے مطابق نقشے بنانے لگا

علاوہ ازیں اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں کے نقشے بنانا شروع کر دیے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ 'ہم پہلے ہی اس علاقے کی نقشہ سازی کررہے ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق ہے'۔

انہوں نے کہا کہ امن منصوبے کے مطابق سارے حصے اسرائیل کا حصہ بن جائیں گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

مزید پڑھیں: فلسطین سے متعلق امریکی منصوبے کے حمایتی عرب ممالک غدار ہیں، ترک صدر

اسرائیلی وزیراعظم نے زور دیا کہ اسرائیل کو جس علاقے سے جوڑنے کا ارادہ ہے اس میں مغربی کنارے کی تمام بستیوں اور وادی اردن کو بھی شامل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 جنوری کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی موجودگی میں مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی۔

فلسطینی اتھارٹی نے اس قبل ہی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی سمیت تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بعد ازاں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ منصوبہ امن کے لیے ناکافی ہے اور عرب لیگ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکا سے تعاون نہیں کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین سے متعلق امریکی منصوبے کے حمایتی عرب ممالک غدار ہیں، ترک صدر

انہوں نے یقین دلایا تھا کہ فلسطین کی ریاست 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی زمین پر قائم ہوگی اور مشرقی یروشلم دارالحکومت ہوگا۔

اجلاس میں مصر، سعودی عرب، اردن، عراق، لبنان سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ فلسطین کے صدر محمود عباس بھی شریک تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں