او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 03 فروری 2020
او آئی سی نے امریکی منصوبے کو غیر منصفانہ قرار دے دیا —فوٹو: اے ایف پی
او آئی سی نے امریکی منصوبے کو غیر منصفانہ قرار دے دیا —فوٹو: اے ایف پی

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے 57 رکن ممالک کو ہدایت کی ہے کہ کسی صورت اس پر عمل نہ کیا جائے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق او آئی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل اور امریکا کے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں، یہ منصوبہ فلسطینیوں کے قانونی حقوق اور خواہشات کے مطابق نہیں ہے’۔

ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ منصوبہ امن عمل کے شرائط و ضوابط کے برعکس ہے’۔

مزید پڑھیں:فلسطین سے متعلق امریکی منصوبے کے حمایتی عرب ممالک غدار ہیں، ترک صدر

دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم نے رکن ممالک کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ‘تمام رکن ممالک اس منصوبے پر عمل نہ کریں اور امریکی انتظامیہ کو اس کے نفاذ کے لیے کسی بھی صورت میں معاونت نہ کریں’۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 جنوری کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی موجودگی میں مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دوگنا ہوجائے گا'۔

فلسطین کے صدر محمود عباس نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کردیا تھا اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:مجوزہ امریکی منصوبے کے بعد فلسطین اوسلو معاہدے کا پابند نہیں رہا، محمود عباس

فلسطینی اتھارٹی نے دو روز قبل امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی سمیت تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بعد ازاں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ منصوبہ امن کے لیے ناکافی ہے اور عرب لیگ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکا سے تعاون نہیں کرے گی۔

انہوں نے یقین دلایا تھا کہ فلسطین کی ریاست 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی زمین پر قائم ہوگی اور مشرقی یروشلم دارالحکومت ہوگا۔

اجلاس میں مصر، سعودی عرب، اردن، عراق، لبنان سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ فلسطین کے صدر محمود عباس بھی شریک تھے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکا کی جانب سے فلسطین-اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مجوزہ منصوبے کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کو 'غدار' قرار دیتے ہوئے منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔

ترک صدر نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بعض ایسے عرب ممالک ہیں جو امریکی منصوبے کی حمایت کرتے ہیں وہ یروشلم (بیت المقدس) کے ساتھ، اپنے لوگوں کے ساتھ اور اس سے بھی اہم بات کہ پوری انسانیت کے خلاف غداری کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان

انہوں نے کہا تھا کہ اگر خطے کی صورت حال کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو ترکی، شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے کیونکہ روس کی حمایت یافتہ شامی سرکاری فوج کے حملوں سے ترکی میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ1967 سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر یروشلم (بیت المقدس) کو اس کی آزاد ریاست کا دارالحکومت بنانے کے فلسطین کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اتفاق کیے گئے پیرامیٹرز، 1967 سے قبل کی سرحدوں اور بیت المقدس کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر ایک قابلِ عمل، آزاد ریاست فلسطین کا قیام چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے فلسطین کے منصفانہ اور دیرپا حل کی حمایت جاری رکھے گا۔

دفترخارجہ نے مزید کہا تھا کہ پاکستان ایک ایسا حل چاہتا ہے جو حقِ خود ارادیت سمیت فلسطینیوں کے تمام جائز حقوق کے حصول کی جانب لے کر جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں