محکمہ صحت سندھ کے 2 افسران جنسی ہراسانی کے مجرم قرار

اپ ڈیٹ 28 فروری 2020
سرکاری افسران کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزامات پر یہ ایک ماہ کے دوران اس قسم کا دوسرا فیصلہ ہے—فائل فوٹو: ڈان
سرکاری افسران کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزامات پر یہ ایک ماہ کے دوران اس قسم کا دوسرا فیصلہ ہے—فائل فوٹو: ڈان

کراچی: محتسب انسدادِ ہراسانی نے اپنے دوسرے فیصلے میں محکمہ صحت سندھ کے 2 افسران کو اپنی خواتین ساتھیوں کو ہراساں کرنے کا مجرم قرار دے دیا۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سندھ محتسب برائے پروٹیکشن اگیسنٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورکس پلیس (کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف خواتین کے تحفظ) نے 2 سال کے طویل عرصے تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد ایک ملزم پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جبکہ دوسرے ملزم کے عہدے کی ترقی 3 سال تک روک دی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سرکاری افسران کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزامات پر ایک ماہ کے دوران اس قسم کا یہ دوسرا فیصلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: این آئی سی وی ڈی کے سیکیورٹی سربراہ پر ہراسانی کا الزام ثابت، برطرفی کا حکم

سندھ محتسب نے یہ فیصلہ اپنے دفتر میں خواتین شکایت گزاروں، ایک ملزم اور دوسرے ملزم کے وکیل کی موجودگی میں سنایا۔

ذرائع نے بتایا کہ مارچ 2018 میں ایک خاتون افسر نے قومی پروگرام برائے زچہ و بچہ اور بچوں کی صحت (ایم این سی ایچ پی) کے صوبائی ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال حسین چانڈیو اور اسی پروگرام کے نگرانی و جائزاتی افسر ڈاکٹر عاشق حسین شاہ کے خلاف مبینہ جنسی ہراسانی کی درخواست دائر کی تھی۔

جس کے بعد محتسب نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد دونوں ملزمان کو مجرم قرار دے دیا۔

محتسب نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’حقائق اور حالات پر ہونے والی سلسلہ وار گفتگو کی روشنی میں میرا غور کیا گیا نقطہ نظر یہ ہے کہ شکایت گزار نے دونوں ملزمان کے خلاف جنسی ہراسانی سے خواتین کے تحفظ کے ایکٹ 2010 کی دفعہ 2 کے تحت جنسی طور پر ہراساں کیے جانے، ذہنی اذیت پہنچانے اور معاندانہ ماحول بنانے کا اپنا الزام ثابت کردیا‘۔

مزید پڑھیں؛ خصوصی رپورٹ: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر کیسے ہراساں کیا جاتا ہے

فیصلے میں ’ڈاکٹر اقبال حسین چانڈیو کو ایکٹ 2010 کی دفعہ (4) کی ذیلی شقوں کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے دفتر محتسب سے حکم نامہ جاری ہونے کے 30 روز کے اندر شکایت گزار کو ایک لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا‘۔

اس کے علاوہ صوبائی محکمہ صحت کی عہدیدار کی جانب سے دوسرے افسر پر بھی لگائے گئے الزامات سماعت کے دوران ثابت ہوگئے۔

قبل ازیں رواں ماہ سندھ محتسب نے تفصیلی تحقیقات کے دوران قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے سیکیورٹی سربراہ اور ان کے 2 ماتحت افراد کو اپنی خواتین ساتھیوں کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر برطرف کرنے کا حکم سنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہراساں کرنے والے اختیارات ایف بی آر افسران سے واپس لیے جائیں گے، شبر زیدی

خیال رہے کہ پارلیمنٹ نے 2009 میں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق قانون منظور کیا تھا جس پر 2010 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دستخط کیے تھے۔

جولائی 2012 میں سندھ حکومت نے ریٹائرڈ ڈسٹرک اور سیشن ججز کو صوبائی محتسبین تعینات کیا تھا اور یوں سندھ، خواتین کو کام کی جگہوں پر جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف شکایت کے لیے ایک قانونی فورم فراہم کرنے والا ملک کا پہلا صوبہ بن گیا تھا۔


یہ خبر 28 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں