Dawnnews Television Logo

خصوصی رپورٹ: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر کیسے ہراساں کیا جاتا ہے

پاکستان میں دفاتر اور یونیورسٹیوں میں صنفی تعصب اور جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک معمول کی بات تصور کی جانے لگی ہے.
اپ ڈیٹ 23 مارچ 2018 06:08pm

صنفی تعصب، سب کی نظروں میں، مگر پوشیدہ

پاکستان میں کام کرنے کی جگہوں اور یونیورسٹیوں میں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، استحصال، اور تفریق عام ہے۔ 300 خواتین سے کیے گئے ڈان کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انہیں اکثر رپورٹ نہیں کیا جاتا اور سینیئر مینیجرز کی جانب سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے بارے میں خاموش رہنے کے لیے کہا گیا تھا، تو 61 فی صد نے کہا کہ ان کے مالکان نے ان پر خاموش رہنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تھا، جبکہ 35 فیصد خواتین نے کہا کہ ان کے ساتھیوں اور باسز نے انہیں خاموش رہنے کے لیے کہا تھا۔

کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں آن لائن سوالناموں اور انٹرویوز کے ذریعے کیے گئے سروے میں مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے جوابات اکھٹے کیے گئے تاکہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے، اور جانا جا سکے کہ آیا کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کے خلاف پالیسیاں موجود ہیں یا نہیں۔

لیکن پھر بھی جب بات ہو باقاعدہ رپورٹ کرنے کے طریقوں کی، تو خواتین کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر کو اس طرح کے مکینزم پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ ہراساں کی گئی صرف 17 فیصد خواتین نے ہی اپنے اداروں کی اندرونی انکوائری کمیٹیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

59 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ ہراساں کرنے کو سنجیدگی سے لیتی ہے مگر پھر بھی زیادہ تر خواتین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کے مینیجرز ہراساں کرنے والوں پر پابندی عائد نہیں کریں گے اور ان کے کام کرنے کی صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔ زیادہ تر خواتین محسوس کرتی ہیں کہ تحقیقات کے دوران ان پر یقین نہیں کیا جائے گا خاص طور پر تب جب ہراساں کرنے والوں کو اوپر تک رسائی حاصل ہو۔

ایک سرجن کی پیشکش

شعبہءِ طب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے صنفی تعصب کے زہریلے کلچر کی کئی کہانیاں سنائیں۔ کچھ نے زمانہءِ طالبِ علمی میں اپنے جسموں کے بارے میں جملوں اور تبصروں کا سامنا کیا جبکہ ان کی ساکھ کے بارے میں بھی تبصرے کیے جاتے تھے۔ ایک خاتون کے مطابق "وہ ہمارے جسم کو ایک سے لے کر 10 کے پیمانے پر پرکھتے تھے۔")

کچھ (خواتین) ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انہیں ترقیاں یہ کہہ کر نہیں دی گئیں کہ وہ اپنے مرد ساتھیوں سے "کم تجربہ کار" یا "ان جتنی پرعزم" نہیں تھیں، یا پھر اس لیے کیوں کہ انہوں نے جنسی مطالبوں کو پورا نہیں کیا تھا۔ وہ خواتین جو کام کی جگہوں پر غلط رویے کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں انہیں ذہنی مریض، جھوٹا، اور رونے دھونے والا قرار دیا جاتا ہے۔

ایک یونیورسٹی ہسپتال کی سابق میڈیکل طالبہ کے مطابق ان کے پروفیسر، جو کہ مشہور آرتھوپیڈک سرجن تھے، اکثر انہیں غیر مطلبوبہ توجہ دیتے۔ ایک دفعہ انہوں نے اس وقت طالبہ کو پیشکش کی جب وہ ان کی زیرِ نگرانی ایک آپریشن کر رہی تھیں۔ "وہ آپریٹنگ روم میں میرے اتنا قریب آ کھڑے ہوئے، بالکل کندھے سے کندھا ملا کر۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپریشن کرتے ہوئے میں نے اپنی انگلی کاٹ لی تب بھی مجھے واپس انہی کے پاس آنا پڑے گا۔ جب آپ [سرجیکل] ماسک پہنے ہوئے ہوں تو آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی ڈاکٹر آپ سے کیا سرگوشی کر رہا ہے۔"

"لڑکیوں کو ہمیشہ لڑکوں سے زیادہ نمبر ملا کرتے۔ انہیں اپنے پسندیدہ طلبہ پر طاقت حاصل تھی۔ ہم جانتے تھے کہ ان کا رویہ مسائل سے بھرپور ہے، اور ہمارے سینیئر بھی یہ بات جانتے تھے، مگر شکایت کر کے ہم اپنے کریئرز کو خطرے میں ڈالتے۔ ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ کچھ پروفیسرز اور کچھ لڑکوں سے ہمیں دور ہی رہنا ہے۔ یہ بہت ہی پریشان کن ماحول تھا۔ مجھے اس سے نفرت تھی۔"

خراب ماحول

ضروری نہیں کہ برا رویہ صرف جنسی ہو، تبھی اسے ہراساں کرنا تصور کیا جائے۔ حقیقت میں مرد باسز کی روز مرہ کی حرکات بھی خواتین ماتحتوں کے لیے کام کا ہتک آمیز ماحول پیدا کر دیتی ہیں۔

ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والی خواتین اکثر بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے مینیجرز ان کے کام اور ان کی قدر کو گھٹاتے ہیں؛ نامناسب طور پر چھوتے اور تبصرے کرتے ہیں، ڈراتے ہیں؛ اور اکثر باسز ہی ان کی کامیابیوں کا کریڈٹ لے جاتے ہیں۔

اسکول ٹیچرز کہتی ہیں کہ ان سے اکثر جنسی تعلقات کے بدلے میں پروموشن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ ایک کا کہنا تھا کہ انہیں "بار بار" باتھ روم جانے پر سب کے سامنے مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔

سیاستدانوں نے کہا کہ انہیں اکثر ان کی وضع و قطع پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ نسوانیت کا مظاہرہ نہ کریں کیوں کہ اسے قائدانہ صلاحیتوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے، اور نہ ہی زیادہ مردانگی کا مظاہرہ کریں کیوں کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مردوں کی دنیا میں انہیں طاقت حاصل کرتے دیکھنا زیادہ تر لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلیاں جہاں خواتین کے حق میں قوانین منظور ہوتے ہیں، وہ بھی روز مرّہ کے صنفی تعصب سے محفوظ نہیں۔

پارلیمنٹ میں صنفی تعصب

جنوری 2017 میں مسلم لیگ فنکشنل کی نصرت سحر عباسی کی سندھ اسمبلی میں دوسری مدت تھی اور وہ حکمراں جماعت کے کچھ مرد ارکان کی جانب سے بار بار کی جملے بازی کی عادی ہو چکی تھیں۔

لیکن پھر بھی انہوں نے 'بس، اب بہت ہوچکا' کا فیصلہ کیا جب پی پی پی کے امداد پتافی نے پوچھے گئے ایک سوال کے ردِ عمل میں انہیں 'تسلی بخش جواب' کے لیے اپنے چیمبر میں آنے کے لیے کہا، جس پر حکمراں جماعت کے دوسرے ارکان نے قہقہے بھی لگائے۔ نصرت نے دھمکی دی کہ اگر پتافی نے استعفیٰ نہ دیا تو وہ خودکشی کر لیں گی۔

ڈان سے گفتگو میں نصرت کہتی ہیں کہ "مجھے تب تک نہیں سمجھ آیا جب تک دوسری خواتین نے بتایا نہیں تھا۔ مجھے جواب دینے کا موقع نہیں ملا کیوں کہ پی پی پی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے میرا مائیک بند کر دیا تھا۔ انہوں نے میرا دفاع نہیں کیا۔ میں مرد ارکانِ اسمبلی کی مسلسل بدزبانی اور سیٹیوں سے تن آ چکی تھی۔"

"وہ سمجھتے ہیں کہ مخصوص نشستوں پر موجود خواتین اپنی میرٹ پر [منتخب] نہیں ہوتیں۔ انہیں احساس نہیں ہوتا کہ جب وہ جملے بازیوں میں مصروف ہوتے ہیں تو اس وقت ہم کام میں مصروف ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ قانون سازی کرواتے ہیں۔" بالآخر جب بلاول اور اصیفہ بھٹو زرداری نے دباؤ ڈالا تو پتافی نے ایوان میں کھڑے ہو کر نصرت سے معافی مانگی۔

یہ کوئی واحد واقعہ نہیں تھا۔ کئی خواتین قانون ساز ایسے نامناسب جملوں کا سامنا کرتی ہیں جن کا مقصد انہیں سب کے سامنے شرمندہ کرنا ہوتا ہے۔ جون 2016 میں اس وقت کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کو 'ٹریکٹر ٹرالی' کہا؛ اپریل 2017 میں پی پی پی کے خورشید شاہ نے کہا کہ اگر خواتین کو 'باتیں' کرنے سے روکا گیا تو وہ 'بیمار پڑ جائیں گی'؛ نومبر 2014 میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ فضل الرحمان نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی خواتین حامی 'بدکردار' تھیں۔ اس رویے کی مذمت کرنے میں ناکامی پر زیادہ تر خواتین قانون ساز مرد رہنماؤں سے ڈانٹ کے خوف سے پارٹی کی حمایت جاری رکھتی ہیں۔

ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کا کہنا ہے کہ جب خواتین خود ہراساں کرنے والوں کو بچائیں، تو اصل میں وہ ان مردوں اور ان کے رویوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہوتی ہیں۔

"اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایسا ہو چکا ہے۔ آپ ان کے رویے کے بارے میں جانتے ہوئے بھی خاموش رہیں گے۔ اچھے تعلقات لوگوں کو طاقت اور اختیار فراہم کرتے ہیں اور لوگ اپنے حلقے کھونا نہیں چاہتے۔ اکثر اوقات ہراساں کرنے والے کمزور ہوتے ہیں، مگر ہراساں کرنے کو ممکن بنانے والے انہیں مضبوط ہونے، حلقوں کے اندر رہنے، اور الگ تھلگ نہ ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ ان طاقتور حوصلہ افزاؤں کو شکایت کنندگان کے آس پاس زیادہ نہیں دیکھیں گے، چنانچہ وہ کمزور اور الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔"

ہراساں کرنے کے مقدمات دیکھنے والے وکیل کہتے ہیں کہ خاموشی اور رازداری کی وجہ سے ہراساں کرنے والے مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر کسی عورت کو خاموش نہ کروایا جا سکے تو وہ یقینی بناتے ہیں کہ خاتون پر کوئی یقین نہ کرے اور اسے شرمندہ کیا جائے۔ ہراساں کرنے والا شخص جتنا زیادہ طاقتور ہوگا، وہ اپنے حامیوں کے ذریعے اس خاتون کی بات کو جھٹلانے میں اتنا ہی کامیاب رہے گا۔

فرض کی راہ میں

سینیئر پولیس افسر ماریہ تیمور تسلیم کرتی ہیں کہ فوسر میں موجود خواتین ہراساں کرنے کے بارے میں اتنی بات نہیں کرتیں جتنی کہ کی جانی چاہیے۔

"اونچی سطح پر تو ہمیں ہراساں کرنے کا اتنا سامنا نہیں کرنا پڑتا، مگر نچلی سطح پر نئی کانسٹیبلز اور اے ایس آئی اس کا سامنا بہت کرتی ہیں۔ فورس میں موجود خواتین اپنے ڈی پی اوز یا سی پی اوز کے پاس شکایت لے جا سکتی ہیں اور مردوں کو شٹ اپ کال دینا سیکھ چکی ہیں۔ مگر اکثر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کئی ضلعوں میں ہراساں کرنے کے خلاف مہمات چلتی ہیں، ہم ذہنیت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ ایک سست مرحلہ ہے۔"

ماریہ ایک اور مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ: "آپ ہراساں کرنے والے کو نہیں پہچان سکتے کیوں کہ اکثر ان کی عوامی ساکھ اتنی قابلِ عزت ہوتی ہے کہ ان کے لیے اپنے نقشِ پا چھپانا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔"

لاہور کے لوئر مال پولیس اسٹیشن کی اے ایس آئی عظمیٰ 12 سالوں سے مردوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔

"ٹھرک جھاڑتے ہیں عادت سے مجبور"۔ بھلے ہی فورس میں موجود خواتین مشکل صورتحال میں بھی خود پر قابو رکھ سکتی ہیں مگر وہ تسلیم کرتی ہیں کہ کچھ مرد انہیں خراب شہرت کی حامل قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

"کیا بکواس ہے۔ خواتین اس لیے کام کرتی ہیں کیوں کہ انہیں ضرورت ہوتی ہے۔"

پھر بھی ہراساں کرنے کا سامنا کرنی والی خواتین دو برے انتخاب کے درمیان پھنس جاتی ہیں۔

سامنا کرو یا نکل جاؤ

سروے میں حصہ لینے والی آدھی سے زیادہ خواتین نے کہا کہ اگر انہیں ہراساں کیا گیا تو وہ نوکری چھوڑ دیں گی۔ 12 فیصد نے کہا کہ کام کی جگہ اور گھر والوں کے ردِ عمل سے فیصلہ ہوگا کہ انہیں رکنا چاہیے یا نہیں۔ مگر کئی نے تسلیم کیا کہ ہراساں کرنے کو نظرانداز کرنا یا کام چھوڑ دینا مسائل میں صرف اضافہ ہی کرے گا۔

"اگر ایک عورت نے ہراساں کرنے کا سامنا نہیں کیا، تو کوئی اور کرے گی۔ اس لیے ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

وومن اِن اسٹرگل فار امپاورمنٹ نامی پروگرام سے تعلق رکھنے والی بشریٰ خالق کہتی ہیں کہ پنجاب محتسب کے پہلے کیسز میں سے 2014 میں ایک محکمہ زراعت کی جونیئر کلرک کی شکایت تھی۔ آفس میں وہ واحد خاتون تھیں اور چھے ماہ تک ان کے ساتھی ان کی شہرت خراب کرتے رہے، ان کی موجودگی میں گندے لطیفے سناتے رہے اور ان کے چہرے پر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے رہے۔ "جب محکمہ انہیں سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا تو بالآخر ان کا خاندان پولیس کے پاس گیا۔ 11 لوگوں کو شکایت میں نامزد کیا گیا اور ہر کسی کو الگ الگ سطح کی سزائیں دی گئیں۔

مگر ایسے نتائج غیر معمولی ہیں۔ انٹرویوز کے دوران خواتین نے بتایا کہ کس طرح ہراساں کرنے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی تقریباً غیر موجود ہے، ایسے معاشرے میں جہاں طاقتور مرد سزا سے بالاتر ہیں۔ "زیادہ سے زیادہ انہیں کلائی پر طمانچہ پڑتا ہے۔"

اپنے آپ میں ایک قانون

ایک خاتون وکیل نے اپنے شعبے میں موجود غلط رویوں کی نشاندہی کی۔ "میرے [سابق] باس جو کہ ایک طاقتور سینیٹر اور وکیل سیاستدان تھے، نے میری جانب غیر مطلوبہ جنسی پیشرفت کی۔ مجھے بتایا کہ سول کورٹس میں خواتین وکلاء 500 روپے میں بکتی ہیں اور یہ کہ وہ کئی "خوبصورت خواتین پارلیمینٹیرینز" کے ساتھ سو چکے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔ اور جب میں نے انہیں واضح طور پر کہا کہ یہ غلط حرکت ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کی آخری ماتحت ایک ٹام بوائے لڑکی تھی اور وہ کبھی بھی انہیں گلے لگانے سے ہچکچاتی نہیں تھی۔ میں نے وہ لاء چیمبر چھوڑ دیا۔"

اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک اور وکیل نے ایک سینیئر وکیل کے بارے میں لکھا جو کہ ایک ہائی کورٹ جج کے بیٹے تھے۔ وہ آدھی رات کو انہیں درجنوں غیر مناسب موبائل پیغامات بھیجا کرتے۔

"میں نے کبھی بھی انہیں جواب نہیں دیا اور اگلی صبح کام پر ان سے سلام دعا ہوتی جیسے کہ کچھ ہوا نہیں۔ فرم میں ہراساں کرنے کے خلاف کوئی پالیسی یا قواعد نہیں تھے۔ مجھے [آس پاس کے لوگوں نے] یقین دلایا کہ یہ معمول ہے اور پیغامات بند ہوجائیں گے۔ جب میں نے چھوڑ دیا تو ان کا ایک اور پیغام آیا جس میں انہوں نے مجھے فاحشہ کہا تھا۔"

کام کی جگہ پر حقوق کے نفاذ میں رکاوٹیں

بشریٰ خالق کہتی ہیں، "جنسی طور پر ہراساں کرنا خواتین پر طاقت اور اختیار کا معاملہ ہے۔ کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف ایکٹ کا مقصد رویوں کی درستگی ہے، اس میں عدالتیں اور پولیس براہِ راست شامل نہیں ہیں۔" 2010 میں اپنے نفاذ اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 میں ترمیم کے بعد اب حقیقی چیلنج اس پر عملدرآمد ہے۔

قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ بھلے ہی عوامی مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کی سزا قید، جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں، مگر فوجداری نظامِ انصاف کی خامیوں کی وجہ سے اس قانون نے اپنا مقصد حاصل نہیں کیا ہے۔

اس دوران بھلے ہی سول قوانین کے تحت اداروں کے لیے ضابطہءِ اخلاق تیار کرنا اور اندرونی طور پر انکوائری کمیٹیاں تشکیل دینا لازم ہے، مگر پھر بھی ادارے ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم مہرگاہ کی ملیحہ حسین کہتی ہیں، "ادارے یہ نہیں کہتے کہ وہ عمل نہیں کریں گے، مگر بس عمل نہیں کرتے۔ پی ٹی وی سے کمیٹی نامزد کروانا بہت زیادہ مشکل تھا۔ دوسری جانب بینک زیادہ عملدرآمد کرتے ہیں کیوں کہ اسٹیٹ بینک کے آڈٹ میں یہ بات شامل ہے۔"

اس قانون کے تحت اگر شکایت کنندہ اندرونی کمیٹی سے مطمئن نہیں ہے تو وہ اپنے متعلقہ محتسب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مگر 8 سال گزر جانے کے باوجود اس وقت صرف سندھ وہ صوبہ ہے جہاں محتسب موجود ہیں۔ پنجاب میں اپریل 2017 سے کوئی محتسب نہیں ہے۔ اور جہاں سابق وفاقی محتسب برائے ہراسگی ریٹائرڈ جسٹس یاسمین عباسی کے مطابق فیصلوں پر عملدرآمد تقریباً ہوتا ہے، وہاں وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ہائی کورٹس کبھی کبھی پیش رفت روکنے کے لیے دائرہ کار نہ ہونے کے باوجود حکمِ امتناع جاری کر دیتی ہیں۔

بشریٰ خالق کہتی ہیں، "مانا کہ خواتین کے لیے حمایت کی کمی کی وجہ سے بولنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ اب زیادہ باشعور ہیں اور جانتی ہیں کہ انہیں یہ سہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ #MeToo یعنی 'میں بھی' کی بین الاقوامی گفتگو اب نچلی سطحوں تک پہنچ چکی ہے۔" اور ان سب گفتگو کے اثرات کیا ہیں؟ اپنے شعبے کے بارے میں عباسی سمجھتے ہیں کہ بولنے سے یہ ضرور یقینی بنے گا کہ "نوجوان خواتین کے لیے سیاست میں داخلے کا راستہ اتنا مشکل نہیں ہے۔"

محتسبِ سندھ کی سابق خصوصی مشیر عظمیٰ الکریم کے مطابق صرف ذہنیتوں میں تبدیلی سے ہی خواتین کے کام کرنے کی جگہیں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ مگر تب تک کے لیے "ہمیں قانون نافذ کرنا ہوگا تاکہ کام کے ماحول میں ہر طرح کے ہراساں کرنے کے خلاف مکمل عدم برداشت ہو۔"

انگلش میں پڑھیں۔

خاکے بشکریہ مریم علی۔

درسگاہوں میں ہراساں ہونے والی خواتین کی آواز

ایک طویل عرصے سے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں صنفی تعصب اور جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک معمول کی بات تصور کی جانے لگی ہے، جبکہ یونیورسٹی حکام کو یہ بات ہضم بھی ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر خواتین ہراساں ہونے کے واقعے اور اخلاق سے عاری رویے کو یہ سوچ کر برداشت کرتی رہتی ہیں کہ اگر اس پر کوئی کارروائی ہوئی تو اس کے خاموش رہنے سے زیادہ نقصاندہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

لیکن دو سال قبل کراچی یونیورسٹی کے شعبہء پاکستان اسٹڈی سینٹر میں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر نوین جی حیدر نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ کیمپس میں ہراساں کیے جانے کے واقعے کے خلاف باضابطہ طور پر شکایت درج کروانے کا فیصلہ کیا، اس بات سے بے خبر کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، (انہوں نے پہلی مرتبہ فروری 2016 میں اپنی شکایت درج کروائی اور پھر اسی سال 14 مارچ کو ان کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا۔)

جب اس وقت کے قائم و مقام سینٹر ڈائریکٹر اور ان کے باس ڈاکٹر جعفر احمد مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے شخص اور وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر اردو پڑھانے والے ڈاکٹر سحر انصاری کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے یونیورسٹی کی انٹرنل انکوائری کمیٹی کو شکایت درج کروانے کا فیصلہ کیا۔ (احمد جو کہ انصاری کو دہائیوں سے جانتے ہیں، انہوں نے نوین حیدر کی دوست، جو کہ ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں، کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر کسی ایک کے طرفداری نہیں کر رہے اور وہ ’غیر جانبدار‘ ہیں۔)

نوین نے اپنی شکایت میں انصاری پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے دو بار بے مطلب اور نامناسب انداز چھونے کی صورت ہراساں کیا۔ نوین نے ایسا راستہ اخیار کیا تھا جو کہ متاثرہ خواتین اکثر و بیشتر شدید رد عمل کی وجہ سے اختیار نہیں کرتیں، وہ کہتی ہیں کہ اس شکایت کے بعد جو کچھ ہوا وہ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔

27 سال پڑھانے کا تجربہ رکھنے والی خاتون کو ایک مسئلے کی جڑ کا لیبل لگا دیا گیا، بلکہ کراچی یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ نے تو انہیں زحمت کا باعث کا قرار دے دیا۔ ہراساں کیے جانے اور امتیاز برتنے پر اٹھائی گئی آواز ان کے لیے گلے کا پھندہ بن گئی۔ تاہم انصاری کے ہاتھوں ہراساں کی جانے والی وہ واحد خاتون نہیں تھیں، اس بات کا علم انہیں جلد ہی ہوگیا۔

نوین کہتی ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں جب وہ یونیورسٹی میں طالبہ تھیں اس وقت بھی انصاری وہاں رہے ہوں گے، لیکن 2002ء میں سینٹر میں اردو پڑھانے کا آغاز کرنے سے پہلے تک ان کا شاید ہی کبھی آمنا سامنا ہوا ہو۔ وہاں بھی ان کے درمیان شاید ہی کبھی بات چیت ہوئی ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ، ’ڈاکٹر انصاری سے میری مختصر بات دسمبر 2015ء کو ہوئی تھی جب وہ میرے کمرے میں آئے اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے طلبہ کے مقالوں کا جائزہ لے رہے تھے تا کہ اردو میگزین کے لیے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاسکے، ان دنوں انہیں اس میگزین کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا۔‘

ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے انصاری دعویٰ کرتے ہیں کہ، ’برسوں سے ہمارے درمیان ایسے ہی دوستی تھی جیسے دو کلیگز آپس میں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے 2000ء میں کہا تھا کہ وہ اسماعیلی سینٹر میں ٹرانسلیشن پروجیکٹ کا کام دلوائیں گی۔ (دیگر لفظوں میں) اگر میں چاہتا تو میرے پاس (ان سے) آزادانہ طور پر پیش آنے کے کئی مواقع تھے۔ لیکن عمر کے اس حصے میں (اطلاعات کے مطابق ان کی عمر 70 کے پیٹے میں ہے) اور اپنے بیک گراؤنڈ کے ساتھ ایسا کرنا مجھے زیب نہیں کرتا۔‘

نوین کہتی ہیں کہ وہ انصاری کی بظاہر صاف رنگت والی خواتین کی پسندیدگی کے حوالے سے بے خبر تھیں، اس کا پتہ انہیں تب چلا جب ان کی شکایت درج کروانے کے بعد دیگر اساتذہ اور طالبات نے انصاری کے ساتھ اپنے تجربات پر بولنا شروع کیا۔

انہیں معلوم ہوا کہ وہ ان کے نمبر تدریسی کام کے لیے رابطہ کرنے کا بہانہ بنا کر لیتے تھے اور پھر مسلسل رات کے وقت انہیں فون کیا کرتے، فون پر وہ انہیں باہر کھانے پر بلاتے، ان کے جسم پر تبصرہ کرتے اور شادی کی اہلیت کا پوچھتے۔

چند نے دعوی کیا کہ انہوں نے انہیں نامناسب انداز میں چھونے کی کوشش کی تھی۔ اس بات کی تصدیق ایک مرد ملازم نے بھی کی۔

نوین نے ڈان کو بتایا کہ ’سینٹر کے ایک کمپیوٹر آپریٹر نے مجھے بتایا کہ اس نے خود دیکھا کہ کس طرح انصاری اپنا ہاتھ ایک خاتون کے کاندھوں کے اوپر سے ہاتھ کو گھوماتے ہوئے کمر سے نیچے تک لے گئے۔ وہ ان کئی گواہوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے باضابطہ انکوائری یا تحقیقات میں اپنی بیان ریکارڈ کروایا تھا۔‘

’صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر احمد کی اہلیہ اور سینٹر کے موجود ڈائریکٹر نے بھی اپنی خواتین طالبات، وہی طلبات جنہیں میں تاریخ پڑھاتی ہوں، کو تنبیہہ کی تھی کہ وہ ڈاکٹر انصاری سے فاصلہ رکھیں۔ یہ بات لڑکیوں نے کافی دیر کے بعد بتائی۔ کلاس کے لڑکے جانتے تھے کہ اگر لڑکیاں ان کے ساتھ فلرٹ کریں گی تو وہ انہیں بڑے گریڈ سے نوازیں گے۔‘

نوین کی گراؤنڈ فلور پر موجود آفس، جو کہ کتابوں اور کاغذوں سے بھرا ایک چھوٹا کمرہ ہے، ایک خاموش اور اندھیری سی راہداری کے ایک کونے میں واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں فروری 2016ء کی ایک دوپہر کو انصاری دروازہ کھٹکھٹائے بغیر اندر چلے آئے اس وقت وہ اپنی ڈیسک پر کام میں سخت مصروف تھیں۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سختی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔

نوین مزید بتاتی ہیں کہ، ’انہوں نے مجھے کہا کہ، آج فرینڈ شپ ڈے ہے۔ اور یہ بھی کہ میں کام سے زیادہ تمہیں پسند کرتا ہوں۔‘.

انصاری کہتے ہیں کہ وہ دوستانہ انداز میں ہاتھ ملا رہے تھے نہ کہ مناسب انداز میں۔

دوسری نکوائری کمیٹی کے جنوری 2018ء میں آنے والے فیصلے (جس کی ایک نقل ڈان کے پاس موجود ہے) میں جب اس بات کو نوٹ کیا گیا تو انصاری نے اس بات سے انکار کردیا کہ ایک خاتون کو قریب تر کھڑا ہونا، گلے ملنا یا ہاتھ چھونا ناگوار اور مناسب محسوس ہوسکتا ہے۔ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ نوین نے انہیں بلی کا بکرہ بنایا تھا، کیونکہ وہ احمد جس طرح سینٹر کے معاملات سنبھال رہے تھے وہ اس سے خوش نہیں تھیں۔

’مشکل کی جڑ‘ جب شکایت کرتی ہے

حتیٰ کہ نوین کی حدود کو پار کیا گیا مگر وہ جانتی تھیں کہ ڈائریکٹر سے شکایت کرنا فضول ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ، ’میں اس موقعے پر غصہ میں تھی اور کمزور محسوس کر رہی تھی کیونکہ مجھے اپنے کام اور اپنی ترقی بھی فکر لاحق تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ قائم مقام ڈائریکٹر کے دوست ہیں اور اس کا مطلب تھا کہ مجھے خاموش ہی رہنا چاہیے۔ میں نے اگر کچھ کہا تو مجھے ہی جھوٹا ہی بلایا جائے گا۔ میرا پاس کون سا ثبوت ہے؟ اور ساتھ ہی، جس طریقہ کار کے تحت معاہدے پر فیکلٹی کو مقرر کیا جاتا تھا اور ان کی مدت کو بڑھائی جاتی ہے، اس پر میں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کو خط لکھا جس میں 2014ء میں ہونے والی بدعوان عوامل کی نشاندہی کی۔ اس بنیاد پر مجھے مسئلے کی جڑ سمجھا گیا تھا۔‘

وہ بتاتی ہیں، چنانچہ وہ انہیں نظر انداز کرتیں، اپنے آفس کا دروازہ لاک رکھتیں، لائبریری میں جانے سے گریز کرتیں جہاں اکثر انصاری زیادہ تر خاتون طالبات کو کلاس کے بعد پڑھا رہے ہوتے۔

14 مارچ 2016ء کو نوین کسی سلسلے میں بات کرنے احمد کے آفس کی طرف جا رہی تھیں تو انہوں نے اسی آفس سے انصاری کو نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک طرف کھڑی ہو گئیں اور انہیں راستہ دیا، وہ بتاتی ہیں کہ، دروازے سے باہر نکل جانے کے بجائے انہوں نے انہیں کندھوں سے پکڑا اور ڈائریکٹر کے پرسنل اسسٹنٹ کی ٹیبل کی طرف دھکیل دیا (اسسٹنٹ اس وقت کھانا کھانے گئے ہوئے تھے)۔ ان کے کندھوں کو پکڑے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’آپ ہچکچا کیوں رہی ہیں؟‘

نوین پوری طرح ڈر گئی تھیں، انہوں نے زوردار آواز میں کہاا، ’آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کا دماغ خراب ہے؟ آپ کو شرم نہیں آتی؟‘

ذلت آمیز حرکت سے پریشان نوین نے اسی دن دوپہر کے وقت احمد کو پورے واقعے سے آگاہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تحریری طور پر شکایت جمع کروائی۔

ادارے کی جانچ کمیٹی (ایک ایسی کمیٹی جس کی ایک ممبر انصاری کی ہی سابق طالب علم ڈاکٹر سیمی طاہر تھیں) نے نوین کی شکایت پر چھان بین کی اور مئی 2016ء میں انصاری پر عائد تمام الزامات کو رد کو کردیا۔

انصاری کے ناشائستہ فعل کے حوالے سے موجودہ اور سابق طلبہ کی گواہیوں کے باوجود بھی کمیٹی نے اپنے فیصلے (جس کی ایک نقل ڈان کے پاس دستیاب ہے) میں تجویز دی کہ ’(نوین) کو اپنا مزاج و طبیعت بہتر کرنا چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ، ’وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ میں ایک ذہنی مریض ہوں۔‘

اس میں مزید لکھا ہے کہ، ’انہوں نے اپنے ذاتی مسئلے کی خاطر طلبہ کو غیر ضروری طور پر اشتعال انگیزی اور بائیکاٹ کی طرف راغب کیا۔‘

جون 2016ء میں انہوں نے اس فیصلے کے خلاف صوبائی محتسب برائے تحفظِ ناموس خواتین ریٹائرڈ جسٹس شاہنواز طارق کے دفتر میں درخواست جمع کروائی، جس میں انہوں نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے گواہان (وہ 16 افراد جنہوں نے آگے آکر انصاری کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا بتایا) کو نظر انداز کیا اور دونوں فریقین کے نہ تو بیانات ریکارڈ کیے گئے اور نہ ہی جراح کیا گیا، جو کہ قانونی طور پر ضروری ہے۔

یہ سب ٹھوس دلائل تھے، 2017ء کے اگست میں محتسب نے کراچی یونیورسٹی کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ایک ’آزاد، غیر جانبدار اور ایماندار‘ افسران پر مشتمل ایک دوسری کمیٹی 30 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ جمع کروائے۔

اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ ’اجازت اور رضامندی کے بغیر کسی خاتون کے جسم کو چھونا ہراساں کیے جانے کے ذمرے میں آتا ہے،‘ محتسب کے فیصلے کے مطابق، ’اپنی کارروائیوں میں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلے میں انکوائری کمیٹی نے نہ تو شفافیت کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی غیر جانبداری کو یقینی بنایا۔‘

جنوری 2018ء میں دوسری کمیٹی کی سربراہی ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے کی، اس کمیٹی نے اپنا فیصلہ سنایا کہ انصاری نے نوین کے ساتھ نامناسب برتاؤ کیا۔ جس انداز میں انصاری اپنی طالبات کو توجہ دیتے ہیں اس حوالے سے ان کی جو ساکھ بنی ہوئی ہے اس بارے میں گواہان کے بیانات کو بھی نوٹ کیا گیا۔

رپورٹ (جو کہ ڈان کے پاس موجود ہے) کے مطابق کوئی بھی چاہے کسی بھی عمر کا ہو، کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو یا کتنی شہرت رکھتا ہو، وہ کمیپس یا کسی دوسری جگہ پر کسی دوسرے شخص کو ہراساں کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ یہ بھی کہ، جب تک ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی تب تک اس قسم کے واقعات خواتین کے لیے کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول میں رکاوٹ کا باعث بنیں گے۔

ڈائریکٹر کی آفس کے باہر نوین کو چھونے سے انکار کرتے ہوئے، انصاری دعوی کرتے ہیں کہ، ’وہ (ڈائریکٹر کے) سینٹر کا ماحول خراب کرنا چاہتی تھیں۔ اگر میں نے ان کے کندھوں کو پکڑا تھا تو انہوں نے مجھے دھکا کیوں نہیں دیا؟ کیا یہ غیر فطری نہیں، وہ چلائی کیوں نہیں؟ ۔۔۔ وہ کافی بہادر، سرگرم کارکن ہیں۔۔۔وہ تو ہٹی کٹی اور صحتمند خاتون ہیں، جبکہ میں تو آدھا معذور شخص ہوں۔‘

انٹرویو کے دوران ڈان نے ان سے دو بار پوچھا کہ کیا انہوں نے توقع کی تھی کہ وہ انہیں دھکا دیں گی۔ انہوں نے دونوں بار اثبات میں جواب دیا، پھر یہ فوراً کہنے لگے کہ بشرطیکہ میں نے نوین کے کندھوں کو چھونے کی کوشش کی ہوتی، اور پھر یہ دعویٰ کیا کہ انہوں انہیں نہیں چھوا۔

پنجاب میں ہراساں کیا جانا کسے کہا جاتا ہے؟

پنجاب یونیورسٹی میں ہراساں کیے جانے کے واقعات کس قدر عام ہے کا اس کا اندازہ ریسرچ جرنل آف ساؤتھ ایشئن اسٹڈیز میں 2017ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے ہوتا ہے جس میں 12 شعبہ جات کے 260 طلبہ سے اعداد و شمار اکٹھا کیے گئے تھے، ان میں وہ واقعہ بھی شامل ہے جسے میڈیا کی کافی زیادہ توجہ بھی حاصل ہوئی۔

ایک پروفیسر، اطلاعات کے مطابق جن کی آفس کے ساتھ ہی ایک بیڈروم بھی تھا، ان کو نوکری سے برخاست کرنے کے اقدام کو ابتدائی طور پر کافی سراہا گیا۔ تاہم، حال ہی میں وہ یونیورسٹی کی مخالفت کے باوجود سیاسی دباؤ کی بدولت دوبارہ یونیورسٹی لوٹ آئے ہیں۔

مندرجہ بالا بات پر وضاحت دیتے ہوئے ڈاکٹر ذکریہ ذاکر نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ پروفیسر یونیورسٹی نہیں لوٹے البتہ کورٹ نے ان کی پینشن بحال کردی تھی کیونکہ وہ اسی عرصے کے دوران ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔

رواں برس قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیے جانے سے قبل، ذکریہ ہی ہراسمنٹ کی شکایات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھے۔

ان کے مطابق کیمپس پر زبانی طور پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں طلبہ کی شکایات، جیسے جملہ کسنا، ملازمت کی جگہ پر ہراساں کیے جانے سے تحفظ فراہم کرنے والے ایکٹ 2010ء کے دائرے میں نہیں آتیں، کیونکہ یہ قانون بنیادی طور پر ملازمین کے لیے ہے۔

اس قانون کے بارے میں ان کی تشریح، بشمول ملازمت کی جگہ پر ہونے والی جنسی طور پر ہراسمنٹ پر ان کی وضاحت اور اس قانون کا اطلاق کس پر ہوتا ہے، وفاقی محتسب جیسے قابل حکام کے بیان کردہ خیالات سے متضاد ہے، محتسب کے مطابق، ‘چونکہ کام کا مطلب ہے کسی چیز کو بنانے یا کچھ حاصل کرنے کے ارادے کے ساتھ کی گئی جسمانی اور ذہنی مشقت، خاص طور پر جب کچھ بنانے یا کرنے کا عمل ایک پیشے، یا فرض منصبی کے اعتبار سے انجام دیا جا رہا ہو یا پھر کسی ٹاسک کے طور پر، لہٰذا اس قانون کا اطلاق مالک اور ملازم اور طلبہ سب سے مساوی طور پر ہوتا ہے۔‘

پورے ملک کے کئی تعلیمی اداروں کی خواتین کو عام طور جس قسم کی ہراسمنٹ کا سب سے زیادہ سامنا ہے اس میں گھورنا، غیر اخلاقی اور واحیات جملے کسنا اور نامناسب انداز میں چھونا شامل ہے۔ یہ حرکات تمام ہی کو ناگوار گزرتی ہے اور اس کو ذلت آمیز سمجھتی ہیں جبکہ کئی تو باعث شرمندگی اور خود کو قصوروار سمجھتی ہیں، انہی وجوہات کی بنا پر کئی ریسرچرز اور ٹیچرز نے اپنی ملازمتیں ترک کردیں، جبکہ طلبہ کو اس ہراسمنٹ کو سہنا پڑ رہا ہوتا کیونکہ انہیں اپنی ڈگری مکمل کرنی ہوتی ہے۔ کئی خواتین تو ہراساں کیے جانے اور ہراساں کرنے والے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اپریل 2017ء میں 50 سے زائد طلبہ (جن میں زیادہ تر خواتین تھیں) نے گورنمنٹ کالج لاہور کے 4 طلبا کے خلاف پٹیشن دائر کی جن کی بارے میں دعوی کیا گیا وہ بس اسٹاپ زبانی طور پر خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔

مہینوں تک چلنے والی ابتدائی سماعتوں کے بعد ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ صرف مردوں پر ہی مشتمل تھی، جو کہ خلافِ قانون ہے کیونکہ قانون کے مطابق تین رکنی کمیٹی میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔

ذرائع کے مطابق سماعتوں کے دوران طلبہ سے غیر متعلقہ اور بے معنی سوالات پوچھے گئے، جبکہ کمیٹی نے صرف اس وقت ہی کچھ رحمدلی کا مظاہرہ دکھایا جب ایک شکایت کنندہ روپڑی تھیں۔ ان سے کچھ اس قسم کے سوالات کیے گئے کہ ’آپ نے بتایا کہ جب آپ بس کی جانب جا رہی تھیں اور اپنے موبائیل فون میں ہینڈ فری لگا رہی تھیں تب ایک لڑکے نے آپ کو جملہ کسا۔ آپ ہینڈ فری کا استعمال کیوں کر رہی تھیں؟‘اور آپ کو ہراساں کرنے والے لڑکوں کے نام کہاں سے پتہ چلے؟ کیا فیس بک کے ذریعے آپ نے ان کے نام تلاش کیے؟ آپ فیس بک پر کیوں ہے؟‘

ہراساں کرنے والا بااثر شخص سے لڑائی

حتیٰ کہ قانون میں واضح ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنا حقوق کی پامالی ہے اور اسی لیے یہ غیر قانونی بھی ہے، لیکن پھر بھی اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کی مکمل طاقت کا سامنا نہیں ہوتا۔ انہی وجوہات کی بنا پر ثقلین نقوی کی باچا خان یونیورسٹی (بی کے یو)، چارسدہ میں بطور وائس چانسلر تعیناتی کا معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔

دسمبر 2016ء میں وفاقی محتسب کے فیصلے میں ثقلین پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا تھا اس وقت وہ راولپنڈی کی ایرڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سائنس کے ڈین تھے۔

ایک ریسرچر نے شکایت درج کروائی تھی کہ ان کے رویے کی وجہ سے انہیں اپنے پی ایچ ڈی تھیسز میں 10 ماہ کی تاخیر ہوئی، کیونکہ اس کے بغیر انہیں ڈگری نہیں عطا کی جاسکتی تھی۔

حتیٰ کہ ثقلین سے انہوں نے ایک ہی کورس پڑھا تھا، مگر وہ ان کی جانب خصوصی توجہ دیتے جس کی وجہ سے انہیں انتہائی پریشانی ہوتی۔ انہوں نے اس خاتون ریسرچر کا یونیورسٹی میں رہنا دوبھر کردیا تھا اور اسی لیے انہوں نے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا۔

الزامات سے انکار کرتے ہوئے بی کے یو کی انتظامیہ نے پشاور ہائی کورٹ کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے 18 اپریل 2017ء کو محتسب کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا تھا۔ تاہم، درخواست گزار کے وکیل نے ڈان کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر محتسب کا فیصلہ ایک طرف رکھا اور اس معاملے کو پنجاب کے صوبائی محتسب کے سپرد کردیا تھا کیونکہ ایرڈ یونیورسٹی وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ عدالت نے تفصیلات کی بنیاد پر یہ کیس صوبائی محتسب کے حوالے نہیں کیا تھا۔

چونکہ پنجاب میں کوئی محتسب تعینات نہیں، اس لیے مقدمہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

ڈان کو دیے گئے اپنے انٹرویوز میں پروفیسرز اور طلبہ کا کہنا تھا کہ انہیں یا تو باضابطہ طور پر شکایات کرنے سے روکا جاتا ہے، الزامات سے دستبرداری کا کہا جاتا ہے یا پھر ان خواتین کی تعلیم اور کریئر متاثر نہ ہو اس لیے ہراساں کرنے والوں کو نظر انداز کرنے کو کہا جاتا ہے۔

پروفیسرز اپنے اختیار اور اپنی مرضی کے گریڈز دینے کے اختیار کے بل بوتے پر طالبات کو ہراساں کرتے ہیں، اور شکایت کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔

ایک پرائیوٹ یونیورسٹی کی طالبہ اپنا تجربہ بیان کرتی ہے۔

چند ایسے بھی کیسز ہیں جن میں سینئر فیکلٹی ممبران نے گریڈز کے عوض جنسی استحصال کرنے کی کوشش کی۔

پشاور یونیورسٹی کے سیاسیات کے شعبے کی پروفیسر نورین نصیر، کہتی ہیں کہ ان کی یونیورسٹی میں شکایات کا مداوا کرنے کے لیے کسی قسم کا بہتر میکنیزم موجود نہیں ہے۔ وہ ایک ایسی فیکلٹی کی ممبر ہیں جہاں مرد غالب ہیں۔ کچھ ایسے بھی کیسز سامنے آئے جن میں چند سینئر مرد فیکلٹی ممبر نے گریڈز کے عوض جنسی استحصال کرنا چاہا۔

بطور ایک سینئر خاتون اسٹاف ممبر وہ خود کو نوجوان طالبات کی ذمہ دار سمجھتی ہیں، اس لیے وہ اکثر انہیں ایسے افراد سے دور رہنے کی تلقین کرتی رہتی ہیں جو کہ اپنی حرکات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

نورین ڈان کو بتاتی ہیں کہ جب ایک پروفیسر کے کمرے سے ایک طالبہ کے چلانے کی آواز سنی، اور وہ روتے ہوئے ان کے کمرے سے باہر نکلیں، تو پورا شعبے کو معلوم ہوگیا کہ کیا ہوا ہے۔ پروفیسر نے دعوی کیا کہ انہوں نے طالبہ کو حجاب اتارنے کو کہا تھا تا کہ وہ انہیں پہچان سکیں۔

معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن ٹیچر آج بھی کیمپس میں ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’چونکہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اس لیے معاملے کو دبا دیا گیا، حالانکہ دیگر جماعتوں نے کیمپس میں احتجاج کیا تھا۔ وہ خاتون ڈر گئیں اور خاموش ہوگئیں۔‘

خواتین نے ڈان کو بتایا کہ شکایت بھی کی جائے تو بھی زیادہ تر موقعوں پر یونیورسٹیاں ان شکایات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور اپنی ساکھ بچانے کی خاطر معاملات پر خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کی ٹیچر بتاتی ہیں کہ کس طرح ہراساں کرنے والے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔

تاہم، خیبر پختونخوا میں موجود یہی قدامت پسندی ہی ایک بڑی وجہ ہے جو اکثر ان افراد کو اپنی حرکتوں سے باز رکھتی ہے جو خواتین کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں، نورین بتاتی ہیں کہ خواتین کو ہراساں کرنے پر ان کے مرد رشتہ دار انہیں قتل کردیں گے، یہ ڈر ان افراد کو اپنی حرکتوں سے باز رکھنے کی ایک اہم وجہ تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن بڑی عمر کے مردوں کو نوجوان طالبات سے دور رکھنے کے لیے یہ ڈر بالکل بھی کافی نہیں۔

ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے ایک لاچار طالبہ شکایت پر ایک سینئر پروفیسر کو یہ دھمکی بھی تھی کہ اگر انہوں نے نوجوان طالبہ کو ہراساں کرنا بند نہ کیا تو وہ انہیں اٹھا کر ’کھڑکی سے باہر‘ پھینک دیں گی۔

وہ بتاتی ہیں کہ، ’19 سالہ طالبہ کو ہراساں کیے جانے پر مجھے ان پر شدید غصہ آیا تھا۔ انہیں خبردار کرنے کا اور کوئی دوسرا طریقہ نہیں تھا اس لیے میں نے ان سے یہ الفاظ کہے۔ نادان نوجوان خواتین سمجھتی ہیں کہ بڑی عمر کے مرد اچھی نیت کے ساتھ انہیں توجہ دیتے ہیں، انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے اصل مقاصد کیا ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ طالبہ کو تعلیم مکمل کرنے دیجیے، وہ آپ میں دلچسپی نہیں رکھتی آپ ان سے دور رہیں۔ پھر بھی وہ طالبہ کو گھٹیا اور غیر اخلاقی میسیجز بھیجتے اور ان سے جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے کہا۔ طالبہ نے اس معاملے کو منظر عام پر لانے سے انکار کردیا۔ وہ طالبہ پہلی خاتون نہیں تھی جس سے انہوں نے جنسی تعلق قائم کرنے کو کہا تھا۔ اس شخص کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی تھے۔ لیکن جب آپ کی صوبائی اسمبلی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بل کی منظوری میں تاخیر کرے تو آپ کیا کرسکتے ہیں؟‘

خاموش رہنے کی قیمت

حال ہی میں ایک سیمینار کے موقعے پر گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز کے شعبہء نفسیات کے چیئرپرسن کاشف فراز احمد نے بتایا کہ غصے کو ضبط کرنے اور ہراساں کیے جانے کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف یا صدمہ نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

کیونکہ جس طریقے سے ہراسمنٹ کی شکایات کو نمٹا جاتا ہے اس سے آخر میں متاثرہ خواتین خود کو قصوروار ٹھہرانے لگتی ہیں جس وجہ سے نہ صرف ان کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے بلکہ ذہنی اور جسمانی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں، خاص طور پر جب معاملہ منظر عام پر آجاتا ہے۔

فیمنسٹ کارکن ایمن بُچہ بتاتی ہیں کہ، ’صرف اس لیے کہ آپ نے کسی کو ہراساں ہوتے ہوئے نہیں دیکھا یا آپ نے کبھی کسی کو ہراساں نہیں کیا، اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ ایسے واقعات پیش نہیں آتے۔‘

حتیٰ کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یونیورسٹیوں میں ہراساں کیے جانے کے واقعات کس حد تک پیش آتے ہیں۔ لیکن ہماری ریسرچ ہراساں کرنے والے طاقتور ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر قانون سے استثنی کے کلچر کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ متاثرہ خواتین غصہ، ندامت اور گناہ گار محسوس کرتی ہیں، حالانکہ جب وہ شکایت بھی کرتی ہیں۔

نوین حیدر کہتی ہیں کہ، چونکہ میرے سامنا مردوں کے ایک حلقے سے ہے اس لیے شاید ہی میں یہ جنگ جیت پاؤں۔

ماہر نفیسات میری پرویز کہتی ہیں کہ،’بدقسمتی سے وہ رویے جو کہ نامناسب محسوس ہوتے ہیں انہیں معاشرے میں کافی عام سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہراساں ہونے والی متاثر خواتین صرف اور صرف انہیں کہا جاسکتا ہے جنہیں جسمانی طور پر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ دیگر طریقوں سے ہراساں ہونے والی خواتین کو متاثر ہی نہیں سمجھا جاتا۔‘

خاموش رہنے کی اذیت بھی اخلاق سے عاری رویے پر آواز اٹھانے سے برآمد ہونے والے نتائج سے نمٹنے کے برابر ہے۔

نوین حیدر کہتی ہیں کہ، ’چونکہ میری جنگ مردوں کے ایک حلقے سے ہے اس لیے شاید ہی میں یہ جنگ جیت پاؤں۔‘

انہوں نے دیگر آپشنز کو چھوڑ کر اپنی مرضی کا فیصلہ کیا، لیکن وہ اپنے اس بہادارنہ اقدام اٹھانے کی قیمت پہلے ہی ادا کر چکی ہیں۔ ان کے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب ہے لیکن ان کی ترقی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اپنے کیس کو لڑنے کے لیے ان کا کافی ذاتی نقصان ہوا اور ان کی صحت بھی متاثر ہوئی۔

وہ خواتین جو خاموش نہیں رہتیں وہ جانتی ہیں کہ اگر نادانستہ طور پر ان واقعات کو نظر انداز کیا گیا تو ملازمت کی جگہوں پر یہی روش جاری رہے گی اور کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ آواز اٹھانے والی خواتین کہتی ہیں کہ حالانکہ ایسے واقعات کو منظر عام پر لانے کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے لیکن اسی طرح ہی دیرپا تبدیلی آئے گی، صرف اس کے بعد ہی خواتین کی جانب معاشرے کے بنیادی رویے میں تبدیلی آئے گی۔ یہ آوازیں مل کر ہی معاشرے کا یہ امتیاز ختم کریں گی۔

تحریر: رزشتہ سیٹھنا، سارا الائیزر، وسیم احمد شاہ، طوبیٰ مسعود

انگلش میں پڑھیں۔