کورونا وائرس: افغانستان میں 1500 امریکی فوجی قرنطینہ مرکز منتقل

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2020
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے اتحادی اہلکاروں اور ٹھکانوں تک رسائی کو بھی محدود کررہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے اتحادی اہلکاروں اور ٹھکانوں تک رسائی کو بھی محدود کررہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکا نے افغانستان میں موجود نئے فوجیوں کی نقل و حرکت کو اتنہائی محدود کرتے ہوئے 15 سو فوجیوں کو قرنطینہ کردیا۔

امریکی کمانڈر کی ہدایت پر دیگر ممالک سے افغانستان آنے والے امریکی شہریوں کو بھی قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: کورونا وائرس نے امریکا کی تمام 50 ریاستوں کو لپیٹ میں لے لیا

امریکی کمانڈر کے فیصلے کے بعد افغانستان میں پہلے سے موجود فوجیوں کی تعیناتی میں توسیع کا امکان ہے تاکہ مشن جاری رہ سکیں۔

یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکا اور طالبان کے مابین گزشتہ ماہ طے پانے والے امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر واشنگٹن افغانستان سے اپنی فوج کی موجودگی کو کم کرنے کا پابند ہے۔

اپنے ٹوئٹ میں امریکی جنرل اسکاٹ ملر نے کہا کہ فوج نے ملک میں پہنچنے والے اہلکاروں کے لیے اسکریننگ کا نیا طریقہ کار شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتہ میں مختلف ممالک سے افغانستان جانے والے تقریباً 15 سو فوجیوں، شہریوں اور ٹھیکیداروں اسکریننگ سینیٹر (قرنطینہ) میں رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے امریکا میں ہتھیاروں کی مانگ میں بھی اضافہ

امریکی جنرل نے کہا کہ بیشتر فوجیوں کی افغانستان میں نئی تعیناتی ہے یا پھر چھٹی سے واپس آرہے ہیں اور انہیں احتیاط کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھا گیا اس لیے نہیں کہ وہ بیمار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے اتحادی اہلکاروں اور ٹھکانوں تک رسائی کو بھی محدود کررہا ہے۔

واضح رہے کہ اب تک امریکی اور اتحادی افواج کے 21 اہلکاروں کو فلو جیسی علامات ہیں جنہیں الگ تھلگ کردیا گیا جہاں انہیں طبی امداد کی جارہی ہیں۔

تاہم تاحال کورونا وائرس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔

مزیدپڑھیں: امریکا میں کورونا کے 10 ہزار سے زائد کیسز، 154 افراد ہلاک

خیال رہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ ہے لیکن امن معاہدے کے تحت فوجیوں کی تعداد اگلے چند مہینوں میں بتدریج کم ہوکر 8 ہزار 600 ہوجائے گی۔

افغانستان میں 22 افراد کو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے لیکن کسی کی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔


یہ خبر 20 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں