25 اپریل تک کورونا کے کیسز 50 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے، حکومتی رپورٹ

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2020
عدالت عظمیٰ پاکستان—فائل فوٹو: سپریم کوٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ پاکستان—فائل فوٹو: سپریم کوٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 35 روز (26 فروری سے 31 مارچ) کے بعد پاکستان میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد یورپی ممالک اور ایران سے کم تھی۔

عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت کیسز میں قید مین موجود ملزمان کی رہائی کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے قومی ایکشن پلان کی رپورٹ جمع کروائی گئی۔

مذکورہ رپورٹ میں 35 دن کے کیسز کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ تعداد یورپی ممالک اور ایران کے مقابلے میں کم ہے تاہم ساتھ ہی کہا گیا کہ 'معیاری ٹیسٹ کی جانچ میں اضافہ ہونا چاہیے'۔

اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں کووڈ 19 سے مرنے والوں کی تدفین کے لیے مناسب طریقہ کار پر مذہبی رہنماؤں اور گورکن کو تربیت دینے پر بھی زور دیا گیا۔

اس رپورٹ میں رواں ماہ کے اختتام (25 اپریل) تک متوقع کورونا کیسز کے بارے میں آگاہ کیا گیا تاہم ایک چیز جو اس رپورٹ میں واضح کی گئی وہ یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دیگر ممالک میں دیکھے جانے والے رجحان سے اخذ تخمینے پر مبنی ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ایک اور وکیل کی قیدیوں کی رہائی کے کیس میں فریق بننے کی درخواست

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس اعداد و شمار کو صرف ایک اشارے کے طور پر لینا چاہیے اور اسے کوئی انکشاف نہیں سمجھنا چاہیے۔

حکومتی رپورٹ کے مطابق 25 اپریل تک ملک میں کورونا وائرس کے کیسز 50 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جس میں 41 ہزار سے زائد کیسز معمولی نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔

تاہم ساتھ ہی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2 ہزار 300 سے زائد کیسز تشویشناک ہوسکتے ہیں جبکہ 7 ہزار سے زائد کیسز سنگین نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔

تاہم مذکورہ رپورٹ میں ان کیسز کے حوالے سے بھی بتایا گیا کہ جو معمولی نوعیت کے کیسز ہوسکتے ہیں وہ گھر پر دیکھ بھال/ آئیسولیشن سے ٹھیک ہوجائیں گے جبکہ سنگین نوعیت کے کیسز کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہوگی جبکہ تشویشناک کیسز کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں اب تک حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا جبکہ مزید اقدامات کے لیے عدالتی سفارشات بھی مانگی گئیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ وزارت قومی صحت، قواعد اور تعاون (این ایچ ایس آر سی) نے عالمی وبا کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت ہی تیاریاں شروع کردی تھیں، ان تیاریوں میں تمام داخلی راستوں پر اسکریننگ کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیچر (ایس او پیز) اور تمام صوبوں میں رابطے کے لیے گائیڈلائنز جاری کرنا شامل تھا۔

عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق تمام صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹیسٹنگ کی سہولیات قائم کردی گئی ہیں جبکہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی جانب سے مقامی سطح پر بنائی گئی ٹیسٹنگ کٹس ڈریپ تکنیکی معاونت کمیٹی کو بھیج دی گئیں ہیں اور اگر یہ کٹس وہاں سے منظور ہوجاتی ہیں تو پھر انہیں عوام کے لیے دستیاب کردیا جائے گا۔

مزید برآں رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک بھر میں 13 ہزار نگرانی مراکز قائم کیے گئے ہیں جو ڈیٹا کو اسلام آباد میں قومی ادارہ صحت میں قائم پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) جمع کروائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق ای او سی کو روزانہ کی صورتحال سے متعلق رپورٹ پیش کرنے اور اعداد و شمار کے تجزیے اور خطرے کی تشخیص کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے دیے گئے فنڈز کو بھی اس عالمی وبا سے لڑنے اور تیاریوں کو مزید بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے اس وائرس سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی فنڈز جاری کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے، نئے قیدیوں کی اسکریننگ کرنے کا حکم

عدالت عظمیٰٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں 154 اضلاع میں مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں وزارت داخلہ کی جانب سے بھی مذکورہ معاملے پر رپورٹ جمع کروائی گئی جس میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک بھر میں فوج اور دیگر ادارے فرائص سر انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زمینی، سمندری اور فضائی راستوں کا انتظام دیکھا جارہا ہے جبکہ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدیں سیل ہیں، مزید یہ کہ پاکستان کوسٹ گارڈز نے سمندر کی تمام جیٹیز آمد و رفت کےلیے بند کر دی ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر کے 8 ہوائی اڈوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ فوج تعینات ہے جبکہ وزارت داخلہ قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں شامل ہے جن کے روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 27سو سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 40 اموات بھی سامنے آچکی ہیں۔

اس وائرس سے سب سے زیادہ صوبہ پنجاب متاثر ہے جہاں متاثرین 1087 ہیں جبکہ 11 اموات ہوچکی ہیں، جس کے بعد سندھ میں متاثرین کی تعداد 830 ہے تاہم یہاں اموات 14 ہوچکی ہیں۔

قیدیوں کی رہائی کا معاملہ

خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے‘۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ ایمرجنسی نوعیت کے حالات ہیں، تمام اقدامات کرنا ہوں گے، ہماری قوم گھبرانے والی نہیں لیکن اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے

بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔

اس موقع پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور ہم صرف ان ملزمان کے حوالے سے فیصلہ کر رہے ہیں جو سزا کے بغیر قید ہیں‘۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔

مزید پڑھیں:قیدیوں کی رہائی، ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل

اپیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 20 مارچ والے حکم سے غلطیاں پیدا ہوئیں کہ وہ قانون، آئین اور پبلک پالیسی کے خلاف ہے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی۔

جس کے بعد گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں