رمضان المبارک کے حوالے سے حکومت اور علما میں 20 نکات پر مشروط اتفاق

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2020
صدر مملکت عارف عارف کی زیر صدارت اجلاس میں 20نکات پر اتفاق کیا گیا — فوٹو: پی آئی ڈی
صدر مملکت عارف عارف کی زیر صدارت اجلاس میں 20نکات پر اتفاق کیا گیا — فوٹو: پی آئی ڈی

حکومت اور علمائے کرام کے درمیان رمضان المبارک میں تراویح، نمازوں اور اعتکاف کے حوالے سے مشروط اتفاق ہو گیا ہے جس کے بعد 20 نکاتی متفہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں علماء سے مشاورت کے لیے اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام صوبوں سے علماء نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: مئی کے وسط میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، وزیراعظم

ایوان صدر مین منعقدہ کانفرنس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں سے جید علما، مشائخ اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی جس میں رمضان المبارک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، صوبائی گورنرز کے ساتھ ساتھ مفتی منیب الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی، پیر امین الحسنات، علامہ راجا ناصر عباس، پیر چراغ الدین شاہ، علامہ عارف واحدی، مفتی گلزار نعیمی، علامہ امین شہیدی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، پیر نقیب الرحمن سمیت دیگر علماء و مشائخ شریک ہوئے۔

اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے استقبالیہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت سمیت تمام صوبوں میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک علما کے مشکور ہین۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ کی چھوٹے تاجروں کیلئے متبادل بنیادوں پر دکانیں کھولنے کی تجویز

ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم موقع ہے، اس وقت ملک کی موجودہ کورونا وائرس کی صورتحال سے سب آگاہ ہیں، رمضان المبارک کے موقع پر موجودہ حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے کیا کیفیت اختیار کی جائے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہرسال رمضان المبارک میں بڑا اہتمام کیا جاتا رہا ہے البتہ موجودہ صورت حال میں ایک پالیسی بنانا ضروری ہے اور اسی کے پیش نظر قوم میں اتفاق رائے انتہائی ضروری ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے علمائے کرام کی رائے بہت ضروری ہے، قومیں نظم و ضبط سے وجود میں آتی ہیں اور میں اُمید کرتا ہوں کہ علما، حضور اکرم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو مثال بناکر موجودہ صورت حال میں رہنمائی کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں سازشی لوگ تبلیغی جماعت یا زائرین کو نشانہ بنارہے ہیں، شیخ رشید

ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم منتظر ہے کہ علما و حکومت رمضان المبارک کے حوالے سے متفقہ اعلان کریں گے، صوبائی حکومتوں کی جانب سے آنے والی رائے کے ساتھ علما کی رائے بہت ضروری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے بارے عوام کو آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔

پاکستان علماء کونسل کی جانب سے صدر مملکت کی زیر صدارت اجلاس میں تجاویز پیش کی گئیں۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہونی چاہیئیں اور نہ نماز باجماعت و اذان کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

حافظ طاہر اشرفی نے مزید کہا کہ مساجد میں وزارت صحت کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اس حوالے سے مسجد کی انتظامیہ اور مقامی انتطامیہ مکمل عمل درآمد کرے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے اثرات کی تصویری جھلک

اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی مشاورت سے مسجد کے رقبہ کے مطابق نمازیوں کی تعداد طے کی جائے اور اس پر ہر ممکن عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

حافظ علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ تعداد سے زیادہ عوام الناس کو روکنے لے لیے پولیس اور مسجد انتطامیہ کے درمیان تعاون ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں مزید تجویز دی گئی کہ علما، آئمہ، موذن عوام الناس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتے، معاملات باہمی مشاورت سے طے کیے جائیں جبکہ وبائی علاقوں میں مساجد کے اندر موجود عملہ اذان و باجماعت نماز کرائیں۔

اجلاس میں یہ بھی تجویز پیش کی گئی کہ نمازی حضرات گھروں سے وضو، سنتوں کی ادائیگی اور نماز کے فوری بعد گھر جانے کی پابندی کریں جبکہ کوشش کی جائے کہ نماز کی ادائیگی کھلی جگہ پر ہو۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری وائرس کو روکنے کیلئے کم لاگت کی ویکسین فراہم کرے، آئی ایم ایف

اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ صوبائی و وفاقی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ کو مقامی مساجد کی انتظامیہ سے فوری مشاورت کا پابند بنائیں۔

اعتکاف کے حوالے سے بھی تجویز دی گئی کہ اعتکاف مساجد میں ہو مگر احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلہ پر عمل درآمد کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹروں کا حکومت سے لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا مطالبہ

علما کے ساتھ مشاورتی اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ کانفرنس میں 20 نکات پر اتفاق کرلیا گیا اور جب تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق ہوجائے تو اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔

20 نکات جن پر اتفاق ہوا

  • مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔

  • اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔

  • جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اْس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔

  • نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔

  • جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔

  • 50 سال سے زائد عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔

  • مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے، سڑک اور فٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔

  • مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لیے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔

  • اسی محلول کو استعمال کر کے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کر لیا جائے۔

  • مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے، ایک نقشہ منسلک ہے جو اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہے۔

  • مسجد اور امام بارگاہ انتظامیہ یا ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔

  • مسجد اور امام بارگاہ کے منتظمین اگر فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لیے صحیح فاصلوں کے مطابق نشان لگا دیں تو نمازیوں کی اقامت میں آسانی ہو گی۔

  • وضو گھر سے کر کے مسجد اور امام بارگاہ تشریف لائیں، صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔

  • لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔

  • اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں، گھر واپسی پر ہاتھ دھو کر یہ کر سکتے ہیں۔

  • موجودہ صورتحال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے۔

  • مسجد اور امام بارگاہ میں اجتماعی افطار اور سحر کا انتظام نہ کیا جائے۔

  • مساجد اور امام بارگاہ انتظامیہ، آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطہ اور تعاون رکھیں۔

  • مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی جا رہی ہے۔

  • اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی، اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کے لیے احکامات اور پالیسی تبدیل کی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس سے دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور اب تک وائرس کی زد میں آ کر کم از کم 144 افراد ہلاک اور ساڑھے 7 ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔

وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں 25 دن سے زائد عرصے سے ملک گیر لاک ڈاؤن جاری ہے۔

حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی مساجد کے لیے بھی خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں جبکہ نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد نہ کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا البتہ ملک بھر میں اس حکم خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تصادم کی خبریں بھی موصول ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں