جرمنی: جنگی جرائم کے الزام میں شام کے سابق کرنل کے خلاف پہلے ٹرائل کا آغاز

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2020
انور رسلان برانچ 251 ٹارچر سیل میں انسانیت سوز حالات اور اس کے نتیجے میں حکومت مخالف افراد کی ہلاکت سے واقف تھے — فوٹو: رائٹرز
انور رسلان برانچ 251 ٹارچر سیل میں انسانیت سوز حالات اور اس کے نتیجے میں حکومت مخالف افراد کی ہلاکت سے واقف تھے — فوٹو: رائٹرز

جرمنی میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث جاری پابندیوں کے باوجود جنگی جرائم میں ملوث شامی فوج کے سینئر رکن کے خلاف پہلے ٹرائل کا آغاز کردیا گیا۔

قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ملزم انور رسلان جو شامی فوج کے سابق کرنل ہیں اور ان کے شریک مدعی علیہ ایاد الغریب، جنہوں نے مبینہ طور پر انور رسلان کے ماتحت کام کیا تھا، دونوں جرمنی میں پناہ گزین کے طور پر مقیم تھے اور انہیں گزشتہ برس فروری میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جرمنی کے جنوب مغربی شہر کوبلینز کے ریجنل کورٹ کی ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا کہ چونکہ دونوں ملزمان تحویل میں ہیں لہذا جرمن قانون کے تحت انصاف اور مؤثر قانونی نظام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیس کو جلد آگے بڑھانا اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کی صورتحال کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنا تھا تاکہ شیڈول طے کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: شام: 9 برس میں ایک لاکھ شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار افراد ہلاک

ٹرائل کا آغاز گزشتہ روز کوبلینز میں ہوا جہاں پریس اور پبلک گیلریز میں نشستوں کے درمیان فاصلہ رکھا گیا تھا، عدالتی کارروائی کا آغاز ملزمان کی فرد جرم باآواز بلند پڑھنے سے ہوا۔

انور رسلان پر انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے، انہوں نے دمشق میں ملٹری انٹیلی جنس کی برانچ نمبر 251 میں تحقیقات کی نگرانی کی تھی۔

جرمن پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ انور رسلان برانچ 251 میں کیے جانے والے ٹارچر، انسانیت سوز حالات اور اس کے نتیجے میں حکومت مخالف افراد کی ہلاکت سے بخوبی واقف تھے۔

انور رسلان کے خلاف مقدمہ اپریل 2011 اور ستمبر 2012 کے عرصے کے دوران ان کی تعیناتی پر مبنی ہے جب برانچ 251 میں کم از کم 4 ہزار قیدیوں کو ٹارچر کیا گیا تھا۔

اس دوران قیدیوں کو اکثر مرتبہ طبی علاج اور خوراک فرہم نہیں کی جاتی تھی اور اس دوران 58 افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں فوجی بیس کو نشانہ بنانے کا امریکی الزام مسترد کردیا

پراسیکیوٹرز، شام کے سابق کرنل کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے کے لیے پراُمید ہیں۔

خیال رہے کہ جرمنی میں ٹرائلز کے دوران کوئی جیوری نہیں ہوتی اور یہ پورا کیس جسے مکمل ہونے میں 2 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے اس کا فیصلہ خصوصی طور پر تعینات کیے گئے ججز کریں گے۔

ٹرائل کے پہلے روز ملزم اور ان کے دفاعی وکلا کے پاس عدالت میں بیان دینے کا موقع ہوتا ہے۔

یہ کیس شامی صدر بشار الاسد کی انتظامیہ کے اعلیٰ سطح کے عہدیدارا کے خلاف عدالت میں چلایا جانے والا پہلا کیس ہے۔

جرمنی، انور رسلان اور ایاد الغریب کے خلاف ٹرائل کے لیے اپنا دائر کار جس اصول کے تحت استعمال کررہا ہے، اس اصول کے تحت جرمن پراسیکیوٹرز ان جنگی جرائم کے مقدمات پر کام کرسکتے ہیں جن کا جرمنی سے قریبی تعلق ہو یا نہ ہو۔

واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں گزشتہ 9 برس سے خانہ جنگی جاری ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 9 برس کے دوران ایک لاکھ 16 ہزار شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق مارچ 2011 میں شروع ہونی والی جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق مارچ 2011 میں شروع ہونی والی جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

علاوہ جنگ نے شامی معیشت کو تباہ کر دیا اور ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد شامی باشندے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں