بھارت کے شہر ممبئی میں مذہبی منافرت پھیلانے والے شہری کو مسلمان لڑکے سے سبزی لینے سے انکار اور نفرت انگیز گفتگو کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 51 سالہ شہری نے آرڈر کے ذریعے سبزی منگوائی اور جب پتہ چلا کہ آرڈر پر سامان پہنچانے والا لڑکا مسلمان ہے، تو انہوں نے سامان لینے سے انکار کردیا۔

ممبئی کے شہری کو مسلمان ملازم کے حوالے سے اسلام دشمنی پر مبنی ویڈیو پیغام نشر کرنے کے چند گھنٹوں بعد گرفتار کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں:بھارت: گجرات کے ہسپتال میں عقائد کی بنیاد پر کورونا مریضوں کے الگ وارڈز کا انکشاف

رپورٹ کے مطابق نفرت انگیز جملوں کا سامنا کرنے والے سیلزمین سلمان کی شناخت 32 سالہ برکت پٹیل کے نام سے ہوئی جو میرا روڑ کا رہائشی اور مقامی سبزی فروش گورفرز کا ملازم ہے۔

برکت پٹیل کو جیا پارک کے علاقے میں مقیم خاتون سپریا چیترویدی کے گھر صبح 9 بج کر 40 منٹ پرگھریلو سامان پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور وہ آرڈر کے مطابق ان کے گھر پہنچا اور پارسل دینے ہی والے تھے کہ خاتون کے والد گجانن نے ایسا کرنے سے روک دیا۔

ویڈیو کے مطابق خاتون کے والد نے پہلے ملازم کا نام جاننے کی کوشش اور پھر برکت پٹیل کو پولیس کے حوالے کردیا۔

برکت پٹیل کا کہنا تھا کہ 'خاتون پارسل کو لینا چاہتی تھی لیکن ان کے والد نے کہا انہیں ایسا کرنے سے روک دیا، جب انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان سے پارسل نہیں لیں گے تو میں نے کچھ نہیں کہا اور فون کے ذریعے ان کی ریکارڈنگ کی کیونکہ یہ بہت دل خراش معاملہ تھا'۔

بعد ازاں برکت پٹیل نے کشمیرا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرادی اور پولیس نے گجانن چیترویدی کے خلاف تعزیرات ہند کے تحت مذہبی عقائد اور احساسات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش پر مقدمہ درج کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں اقلیتوں سے ناروا سلوک باعث تشویش ہے، دفتر خارجہ

کشمیرا پولیس اسٹیشن کے سینئر انسپکٹر سنجے ہیجارا کا کہنا تھا کہ ملزم کو مذکورہ ایڈریس پر تلاش کرلیا گیا جس کی نشان دہی ویڈیو میں کی گئی تھی اور برکت پٹیل نے بتایا تھا۔

برکت پٹیل کا کہنا تھا کہ جب سے لاک ڈاؤن کیا گیا صارفین میرے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں جبکہ ہم اس کام کے باعث بڑا نقصان مول رہے ہیں اور اکثر صارفین اس بات کو بہتر سمجھتے ہیں کہ میں یہ کام کیوں کررہا ہوں۔

خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا اور مذہبی منافرت عروج کو پہنچی تھی جس پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا اور ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے جبکہ ہسپتالوں میں مسلم منافرت کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے۔

انڈین ایکسپریس نے 15 اپریل کو اپنی رپورٹ میں ریاست گجرات کے بڑے شہر احمد آباد کے سول ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں اور مشتبہ کیسز کو ان کے عقائد کی بنیاد پر الگ الگ وارڈز میں رکھنے کا انکشاف کیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر گنونت ایچ راٹھوڑ نے کہا کہ ریاستی حکومت کے احکامات کے مطابق ہندو اور مسلمان مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈز بنائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر گنونت ایچ راٹھوڑ کا کہنا تھا کہ عام طور پر مرد اور خواتین مریضوں کے لیے علیحدہ علیحدہ وارڈز ہوتے ہیں، لیکن یہاں ہم نے ہندو اور مسلمان مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈز بنائے ہیں۔

مزید پڑھیں:'وائرس کے خلاف ناکام پالیسی سے توجہ ہٹانے کیلئے مودی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے'

دوسری جانب ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ 'میں عقائد کی بنیاد پر وارڈز کے فیصلے سے واقف نہیں ہوں، عام طور پر مرد و خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ وارڈز ہوتے ہیں، تاہم میں معاملے کی تحقیقات کروں گا۔'

احمد آباد کے کلیکٹر کے کے نرالا نے بھی معاملے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہماری طرف سے اس طرح کی کوئی ہدایت نہیں دی گئیں اور نہ ہی ہمیں حکومت کے ایسے کسی فیصلے کا علم ہے'۔

ہسپتال میں موجود ایک مریض کا کہنا تھا کہ 'ہسپتال کے پہلے وارڈ (اے فور) میں داخل 28 مرد مریضوں کے نام پکارے گئے اور پھر انہیں دوسرے وارڈ (سی فور) میں منتقل کردیا گیا، ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمیں دوسرے وارڈ کیوں منتقل کیا جارہا ہے جبکہ جن کے نام پکارے گئے ان سب کا تعلق ایک ہی برادری سے تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے وارڈ کے عملے کے ایک رکن سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا دونوں برادریوں کی تسلی و اطمینان کے لیے کیا گیا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں