نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے متعدد مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں اس کی علامات نظر نہیں آتیں یا کچھ دن لگتے ہیں، جس کے دوران وہ جراثییم کو صحت مند افراد میں منتقل کردیتے ہیں۔

یہ اس وائرس کا ایسا پہلو ہے جس نے اسے تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم کی اور دنیا بھر میں سائنسدان فکرمند ہیں کہ ایسے لوگوں کی شناخت کیسے کی جائے جن میں یہ علامات نظر نہیں آتیں۔

اب امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے سائنسدان کووڈ 19 کے ایسے نئے ٹیسٹ کو تیار کرنے پر کام کررہے ہیں جو خاموشی سے وائرس آگے پھیلانے والے افراد کی شناخت ابتدا میں کرسکے گا۔

اگر اس میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہوگی اور سائنسدانوں کو توقع ہے کہ خون کے اس ٹیسٹ سے وائرس کی موجودگی انفیکشن کے 24 گھنٹے بعد ہی ممکن ہوجائے گی، یعنی لوگوں میں علامات ظاہر ہونے سے بھی پہلے، جو اوسطاً 5 دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔

یعنی یہ ٹیسٹ اس وقت کیے جانے والے ٹیسٹوں کے مقابلے میں 4 دن قبل ہی وائرس کی تشخیص کرسکے گا۔

امریکی فون کے ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی (ڈرپا) کے ایک منصوبے سے اس ٹیسٹ کا خیال سامنے آیا جس کا مقصد کسی جراثم یا کیمیائی ہتھیار کی فوری تشخیص کرنا ہے۔

اب اسے نئے نوول کورونا کی وبا کے حوالے سے ڈھالا جارہا ہے اور توقع ہے کہ ایک ہفتے میں یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے اس کی منظوری حاصل کی جائے گی۔

ڈرپا کے بائیو لوجیکل آفس کے سربراہ ڈاکٹر بریڈ رینگینسن نے کہا 'اس تصور سے دنیا بھر میں تشخیص کا خلا بھرنا ممکن ہوگا، اور اگر ایف ڈی اے نے منظوری دی تو یہ ایک گیم چینجر ہوگا'۔

اگرچہ جلد تشخیص سے دنیا بھر میں حکومتوں کے ٹیسٹ اور ٹریس کے پروگرامز کی افادیت بہتر ہوگی تاہم ڈرپا نے انتباہ کیا ہے کہ اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک ایف ڈی اے کی جانب سے منظوری نہیں دے دی جاتی۔

نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہاسپٹل کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر اسٹیورٹ سیلفون نے کہا 'تحقیق کا مقصد ایک مستند بلڈ ٹیسٹ تیار کرنا ہے جو ابتدائی مرحلے میں کووڈ کی تشخیص کرسکے'۔

انہوں نے کہا کہ نئے ٹیسٹ کے نتائج اس وقت نسل سواب ٹیسٹس کے مقابلے میں بہت جلد مل سکیں گے 'کیونکہ مدافعتی ردعمل اس وقت بن جاتا ہے جب کوئی انفییکشن کا شکار ہوتا ہے'۔

اس ٹیسٹ کی تیاری میں امریکی فون کے ساتھ ماؤنٹ سینائی، ڈیوک یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کام کررہے ہیں اور نتائج آن لائن جاری کیے جانے کا امکان ہے، جس سے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو اس سے ملتے جلتے طریقہ کار کے ٹرائل کرنے کا موقع مل سکے گا۔

اگر منظوری مل گئی تو یہ ٹیسٹ امریکا میں مئی کے دوسرے عشرے میں متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

ڈرپا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم بہت پرجوش ہیں، ہم اس ٹیسٹ جلد از جلد متعارف کرانا چاہتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگر کے ساتھ اسے شیئر بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ممالک میں اس پر عملدرآمد کراسکیں۔

انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ ٹیسٹ وائرس آگے پھیلانے والے افراد کی وقت سے پہلے تشخیص کرسکے گا تاہم ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

سائنسدانوں کو توقع ہے کہ مئی مں روزانہ ایک لاکھ ٹیسٹوں سے آغاز ہوگا اور اس تعداد کو 10 لاکھ روزانہ تک پہنچایا جائے گا۔

اس ٹیسٹ کی بدولت کیسز کو متعدی ہونے سے قبل آئسولیشن میں رکھنے کا موقع ملے گا جس سے وائرس پھیلنے کا عمل رک جائے گا اور قرنطینہ کی مدت میں بھی ڈرامائی کمی آسکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں