عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کم از کم 62 ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور ماہرین پرامید ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک کامیاب بھی ہوگی۔

اس کی وجہ وہ ابتدائی شواہد ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں اینٹی باڈیز یا خون میں ایسے پروٹینز بن جاتے ہیں جو وائرسز پر حملہ کرکے انہیں ناکارہ کردیتے ہیں۔

اس حوالے سے امریکا کی ایک کمپنی موڈرینا تھیراپیوٹکس نے بہت تیزی سے کام کرتے ہوئے وائرس کے جینیاتی سیکونس بننے محض 42 دن بعد ایک ویکسین کی انسانی آزمائش شروع کردی۔

اگرچہ اسے ریکارڈ بریکنگ پیشرفت قرار دیا گیا مگر اس ویکسین کے پیچھے جو بائیو ٹیکنالوجی کام کررہی ہے وہ لگ بھگ 30 سال سے موجود ہے۔

ماضی کی مثالوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ایک یا ڈیڑھ سال سے پہلے ویکسین کی تیاری ممکن نہیں بلکہ زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔

اس وقت سب سے تیزی سے جس ویکسین کی منظوری دی گئی وہ mumps ویکسین ہے، جس کے وائرل نمونے اکٹھے کرنے سے لے کر 1967 میں استعمال کرنے کے لائسنس تک 4 سال کا عرصہ لگا۔

ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز 3 مراحل میں مکمل ہوتے ہیں، کووڈ 19 کی ویکسینز کا پہلا مرحلہ اس سال خزاں، اگلے سال موسم بہار یا اس کے بعد تک مکمل نہیں ہوگا، کیونکہ اس کے حفاظتی اثرات کے لیے وقت دیا جائے گا۔

بیلور یونیورسٹی کے نیشنل اسکول آف ٹروپیکل میڈیسین کے پروفیسر پیٹر ہوٹز کے مطابق 'ایک سال سے 18 ماہ میں بھی ویکسین کی تیاری بے مثال کامیابی ہوگی، ہوسکتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی، بہت زیادہ سرمائے سے ایسا ممکن ہوجائے، مگر وقت کے تخمینے کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے'۔

متعدد راستے

تمام ویکسینز جسم کے مدافعتی نظام کو یہ قائل کرنے کا کام کرتی ہیں کہ اسے غیرملکی حملہ آور کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا ہے، اب یہ وائرس ہو، بیکٹریا یا پیراسائٹ۔

اس مقصد کے لیے عموماً کسی وائرس کو لیا جاتا ہے اور اسے کمزور یا مار کر دوا میں شامل کرکے جسم کے اندر انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔

آئیووا یونیورسٹی کے کالج آف فارمیسی کے پروفیسر علی سلیم کے مطابق اسی طریقہ کار کے تحت چیچک، خسرہ اور فلو کی ویکسینز تیار ہوئیں۔

اس روایتی تیکنیک میں مدافعتی نظام کے ردعمل پر انحصار کیا جاتا ہے جو وہ جراثیم سے تیار کردہ انفرادی پروٹینز پر ظاہر کرتا ہے، عموماً ویکسین انجیکٹ کرنے کے بعد جسم میں اینٹی باڈیز بننا شروع ہوجاتی ہیں۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ سائنسدانوں کو احساس ہوا کہ اس مقصد کے لیے پورے وائرس کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے متبادل کے طور پر ایک سنگل پروٹین سے بھی طاقتور مدافعتی ردعمل پیدا کیا جاسکتا ہے۔

پروٹین پر مبنی ویکسینز کی تیاری آسان اور سستی ہوتی ہے اور اب ان کا استعمال عام ہوچکا ہے۔

کووڈ 19 ویکسین کی تیاری میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس وقت انسانوں پر اثرانداز ہونے والے کسی بھی قسم کے کورونا وائرس کے لیے طبی طور پر موثر ویکسین موجود نہیں۔

2002 میں سارس اور 201 میں مرس کورونا وائرس سے دنیا بھر میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور یہ دونوں جینیاتی طور پر نئے نوول کورونا وائرس سے کافی ملتے جلتے بھی ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی ویکسین تیار نہیں ہوسکی۔

پروفیسر پیٹر ہوٹز بتاتے ہیں 'ہم 21 ویں صدی کی ہر دہائی میں ایک کورونا وائرس کی وبا دیکھ رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک بڑا خطرہ ہے'۔

پروفیسر پیٹر اور ان کے ساتھی ایسے امراض اور کورونا وائرسز کے لیے ویکسینز کی تیاری پر کام کرتے رہے جن کو بعد میں بھلادیا گیا، اگرچہ یہ دونوں کورونا وائرسز دنیا کو خبردار کرگئے، مگر سارس کسی ویکسین بننے سے قبل غائب ہوگیا جبکہ مرس کے بھی اتنے کم کیسسز تھے کہ ویکسین کے لیے فنڈز نہیں مل سکے۔

مختلف کمپنیوں جیسے موڈرینا کی جانب سے ابتدائی پیشرفت سے فوری کامیابی کی امید پیدا ہوئی ہے، مگر اسی سے ملتی جلتی بائیو ٹیکنالوجی پر مبنی سابقہ ویکسینز کو انسانوں میں موثر ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوچکا ہے۔

اس طرح کی ادویات یا ویکسین وائرس کے بنیادی جینیاتی مواد ڈی این اے یا آر این اے انسانی خلیات میں داخل کرتی ہیں، جہاں وہ ایسے پروٹین تیار کرتی ہے جو مدافعتی ردعمل کو حرکت میں لاتا ہے۔

ڈی این اے اور آر این اے ویکسینز جلد تیار کرنا ممکن ہے، ایک بار ویکسین تیار کرنے والے کسی جراثیم کے جینوم کو شائع کردیں تو ان کے لیے موثر مدافعتی ردعمل کو ٹیون کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔

یہ طریقہ کار کسی مرض کے جانوروں کے ماڈل پر تسلسل سے کارآمد ثابت ہوا ہے اور 6 اپریل کو کووڈ 19 کے حوالے سے جس دوسری ویکسین کی انسانی آزمائش شروع ہوئی، وہ بھی مرس کے بارے میں ابتدائی مثبت نتائج پر مبنی ہے۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان دیگر جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس طرح کی ویکسینز سے وابستہ توقعات غلط ثابت نہ ہوجائیں۔

سب سے پہلے ویکسین کس کو ملے گی؟

کووڈ 19 کی ویکسین کی تیاری کے حوالے سے نتائج کا انحصار اس دوا کی لاگت کی تیاری اور اس کا بوجھ اٹھانے والے پر ہوگا۔

طبی ماہرین کے مطابق ڈی این اے اور آر این اے ویکسینز کی لاگت روایتی ویکسینز کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

پروفیسر پیٹر ہوٹز کے مطابق 'ہم متعدد نئی ٹیکنالوجیز کو کلینیکل پیشرفت کی جانب بڑھتے دیکھ رہے ہیں اور میرے خیال میں یہ مثبت رجحان ہے کیونکہ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، مگر ہمیں یہ فکر ہے کہ دنیا کے غریب ترین افراد کو تو اس عمل میں نظرانداز تو نہیں کردیا جائے گا'۔

بین الاقوامی سطح پر ادویات تک رسائی کے لیے کام کرنے والے GAVI Alliance کے سی ای او سیتھ بیکرلے کے مطابق اس کو روکنے کے لیے عالمی رہنمائوں کو اکٹھے ہوکر عالمی رسائی کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔

اس طرح کا معاہدہ زیادہ متاثر آبادی جیسے بزرگ، طبی عملے، غریب ممالک کے باسیوں تک ویکسین کی رسائی کی ضمانت ثابت ہوگا۔

اسی سے اس کمپنی یا یونیورسٹی جو کووڈ 19 کی ویکسین کی تیاری کی دوڑ میں کامیاب ہوگی، کو اپنی بائیوٹیکنالوجی دنیا بھر میں منتقل کرنے کا موقع ملے گا۔

مثال کے طور پر ایبولا ویکسین کو کینیڈا میں تیار کیا گیا، پھر اسے امریکا کی بائیو ٹیک کمپنیوں اور محققین کو منتقل کیا گیا اور آخر میں اسے جرمنی میں تیار کیا گیا۔

اب وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کی بدولت ایبولا کی دوسری لہر کو روکنا ممکن ہوچکا ہے۔

اگر کووڈ 19 ویکسین تیار ہوگئی تو ایک بڑا سوال ابھی یہ بھی ہے کہ قوت مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکے گی۔

پین پریزبائیٹرین میڈیکل سینٹر کے شعبہ انفیکشن پریونٹیشن اینڈ کنٹرول کی ڈائریکٹر جوڈتھ او ڈونیل کے مطابق 'ایک بار ویکسین بن گئی اور قوت مدافعت زندگی بھر کے لیے برقرار رہی تو یہ دنیا کے لیے بہترین منظرنامہ ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ مگر اکثر نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کے خلاف مدافعت ایک سے 2 سال تک برقرار رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو کسی بھی کووڈ 19 ویکسین کو مخصوص عرصے بعد دوبارہ استعمال کرنا پڑے۔

ویکسین کی تیاری تک ہر ایک کو طبی مشوروں پر عمل کرنا چاہیے یعنی سماجی دوری کی مشق، گھر پر زیادہ سے زیادہ قیام، ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا، چہرے کو چھونے سے گریز۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں