چین اور جنوبی کوریا میں درجنوں نئے نوول کورونا وائرس کے درجنوں ایسے کیسز سامنے آئے تھے جن میں مریضوں میں صحتیاب ہونے کے چند ہفتوں بعد دوبارہ کووڈ 19 کی تشخیص ہوگئی تھی۔

اور اب جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے اس کی ممکنہ وجہ تلاش کرلی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے ایسے مریض جن میں صحتیابی کے کئی ہفتے بعد دوبارہ اس کی تشخیص ہوتی ہے، ان میں وائرس کے مردہ ذرات کا اجتماع ہوتا ہے جو روایتی ٹیسٹس میں پکڑ میں نہیں آتے۔

جنوبی کوریا کے نیشنل میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ کورونا وائرس نظام تنفس کے خلیات میں داخل ہونے اور متاثر کرنے کے بعد ایک سے 2 ہفتے میں مرجاتا ہے۔

ڈاکٹروں نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ وائرس کے جینیاتی مواد کے کچھ حصے بدستور خلیات میں رہتے ہیں اور انفیکشن کے ایک یا 2 ماہ بعد ٹیسٹ میں ان کی تشخیص ہوتی ہے، جس سے موجودہ ٹیسٹنگ کے محدود ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میڈیکل اسکول کے پروفیسر پیٹر کولیگنون نے اس حوالے سے بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ ایسے مریضوں میں وائرس واضح یا انفیکشن کا باعث نہ ہو، مگر ہمیں جانوروں پر اس کے تجربات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وائرس زندہ ہوتا یے یا مردہ۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی کوریا میں ہونے والی دریافت کے باوجود متعدد ایسے سوالات موجود ہیں جن کے جواب ابھی نہیں مل سککیں۔

ماہرین کے مطابق کسی مریض میں متعدی وائرس نظام تنفس اور فضلے کے مواد میں پایا جاتا ہے، وہ کسی متاثرہ فرد کے قرنطینے کے دورانیے کے تعین کے لیے اہم ہوتا ہے، تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ بہت زیادہ بیمار افراد معتدل کیسز کے مقابلے میں زیادہ وقت تک وائرس کو دیگر افراد تک منتقل کرتے ہیں۔

کورین سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونتیشن نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر ایسے مریضوں میں دوبارہ متحرک ہوجاتا ہے جو اس بیماری سے صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں ایسے 200 سے زائد کیسز سامنے آئے تھے جن میں مریضوں میں دوبارہ اس وائرس کی تصدیق ہوئی اور سیئول نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر اوہ میوینگ ڈون نے پریس کانفرنس کے دوران کہا 'میں بتانا چاہتا ہوں کہ صحتیابی کے بعد دوبارہ اس وائرس سے متاثر ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے'۔

دوبارہ متحرک ہونا یا وائرس کا شکار ہونا؟

وائرس کے دوبارہ متحرک ہونے یا دوبارہ اس کا شکار ہونے کے بارے میں مستند طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں جس کی وجہ ٹیسٹنگ کے عمل کا قابل اعتبار نہ ہونا بھی ہے جو ایک دن وائرس کی تصدیق کرتا ہے تو اگلے دن نیگیٹو۔

صحتیاب افراد میں دوبارہ انفیکشن کا خدشہ چین میں بھی ابھرا ہے جہاں متعدد مریضوں میں اس وائرس کی دوبارہ تصدیق ہوئی بلکہ کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں، حالانکہ مانا جارہا تھا کہ وہ افراد صحتیاب ہوچکےہ یں۔

دنیا بھر میں وبائی امراض کے ماہرین کووڈ 19 کا باعث بننے والے وائرس کے زیادہ تفصیلات جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اسی میں یہ تحقیق بھی کی جارہی ہے کہ صحتیابی کے بعد اس وائرس سے دوبارہ متاثر ہونا ممکن ہے یا نہیں، طبی ماہرین ایسے مریضوں پر بھی توجہ مرکوز کررہے ہیں، جن میں یہ وائرس تو ہوتا ہے مگر علامات نظر نہیں آتیں یا بہت معمولی ہوتی ہیں۔

جنوبی کوریا ایسے کیسز کی ٹریکنگ میں سرفہرست ہے اور یہ مسئلہ چین میں بھی خدشات کا باعث بن رہا ہے جو اس وائرس کی دوسری لہر کی روک تھام کی کوشش کررہا ہے۔

عالمی سطح پر ایک بار وائرس سے متاثر افراد میں صحتیابی کے بعد اس کی دوبارہ تشخیص اور آگے پھیلانے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ بیشتر ممالک وائرس پھیلنے کی رفتار میں کمی کے بعد لاک ڈائون کو ختم اور معاشی سرگرمیاں بحال کرنا چاہتےہیں۔

ابھی دنیا بھر میں وائرس سے متاثر ہونے پر لوگوں کو 14 دن تک الگ تھلگ رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

چینی طبی حکام کا کہنا ہے کہ ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ جن افراد میں وائرس کی دوبارہ تشخیص ہوئی ہے وہ دیگر افراد کو بھی بیمار کررہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں