برطانیہ میں پاکستانی برادری کو کورونا سے زیادہ خطرہ

اپ ڈیٹ 03 مئ 2020
برطانیہ میں پاکستانی نژاد برطانوی افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور مرنے کے  زیادہ خطرات ہیں— فائل فوٹو:رائٹرز
برطانیہ میں پاکستانی نژاد برطانوی افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور مرنے کے زیادہ خطرات ہیں— فائل فوٹو:رائٹرز

لندن: ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں موجود پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے دیگر سفید فام برطانوی شہریوں کے مقابلے میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور مرنے کے زیادہ خطرات ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 7 پاکستانی ڈاکٹرز کی ہلاکت کے بعد انسٹیٹیوٹ آف فسکل اسٹڈیز کی ایک نئی جامع تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان نژاد برطانوی اور برطانوی سیاہ فام افریقیوں کی کورونا وائرس سے ہلاکت کی شرح سفید فام (گوروں) کی آبادی کے مقابلے میں 2.5 گنا زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس برطانیہ میں پاکستانی برادری کے ڈاکٹرز کے علاوہ دیگر نرسز اور میڈٰکل اسٹاف کی بھی جان لے چکا ہے۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر لوسنڈا پلیٹ اور ریسرچ اکنامسٹ توس وارسک کی مرتب کردہ مشترکہ رپورٹ، پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی جانب سے اکٹھا کیے گئے ڈیٹا کے تجزیہ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے تمام نسلوں پر ایک جیسے اثرات نہیں ہیں۔

اس کے کچھ اہم نتائج کے مطابق سیاہ کیریبین آبادی کی فی فرد ہسپتال میں کورونا وائرس سے اموات سب سے زیادہ ہیں جبکہ سفید فام برطانوی اکثریت سے ان کی اموات کی تعداد تین گنا زیادہ ہے، اس کے علاوہ کچھ اقلیتی گروہوں جن میں پاکستانی اور سیاہ فام افریقی شامل ہیں ان کی آبادی کی اوسط سے ہسپتال میں فی فرد ہلاکتوں کی تعداد اتنی ہی دیکھی گئی ہے جبکہ بنگلہ دیشیوں کی اموات کم رہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 18851 افراد کورونا وائرس سے متاثر، اموات 432 تک پہنچ گئیں

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ جب عمر اور جغرافیے کو مدنظر رکھا جائے تو، زیادہ تر اقلیتی گروہوں کی سفید فام برطانوی اکثریت کے مقابلے میں فی فرد کم اموات ہونی چاہیے تھیں۔

بیشتر اقلیتیں مجموعی طور پر آبادی سے اوسطاً کم عمر بھی ہیں جس کی وکہ سے انہیں کم کمزور ہونا چاہیے تاہم پھر بھی تصدیق شدہ کیسز اور اموات ایک الگ کہانی بیان کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’سیاہ فام افریقیوں اور پاکستانیوں کی فی فرد ہلاکتوں کی تعداد سفید فام برطانویوں کے مقابلے میں کم ہونے کی امید کی جانی چاہیے تھی تاہم فی الحال یہ موازنہ کے قابل ہیں‘۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گھر میں آمدنی کو بڑھانے کی استعداد پارٹنرز کے روزگار کی شرح پر انحصار کرتی ہے، جو پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین کے لیے بہت کم ہیں۔

رپورٹ میں ان حیرت انگیز نتائج کو ایک گراف میں دکھایا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں 12 لاکھ پاکستانی آبادی کے مقابلے میں 4 کروڑ 23 لاکھ آبادی والے سفید برطانوی لوگوں کی ہسپتال میں اموات کافی کم ہیں۔

'غیر متناسب چینلنگ'

علاوہ ازیں ڈان کو ایک ای میل میں، پروفیسر لوسنڈا پلیٹ نے بتایا کہ ’انگلینڈ اور ویلز میں پاکستانیوں کی ہسپتال میں اموات کو اگر ان کی عمر اور جہاں وہ رہتے ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری امید سے2.7 گنا ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اسی دوران انگلینڈ اور ویلز میں مقیم پاکستانی اس لاک ڈاؤن کے معاشی انجام سے بھی زیادہ دوچار ہوئے ہیں، کسی ایک شعبے میں دیکھا جائے تو کام کرنے کی عمر والے سفید فام برطانوی افراد کے مقابلے میں اسی عمر کے پاکستانی مرد 3 گنا زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان طریقوں کو پہچاننا ضروری ہے کہ کچھ گروہوں کو خاص طور پر پیشہ ورانہ شعبوں میں غیر متناسب طور پر تبدیل کیا گیا تھا، ‘چاہے پھر وہ دیکھ بھال کے کام ہوں یا ٹیکسی ڈرائیونگ کے، اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیسے اور کیوں ہوتا ہے کیونکہ یہ شعبے اکثر وہ ہوتے ہیں جو تنخواہ اور سماجی تحفظ کے معاملے میں معمولی ہیں‘۔

وائرس سے ہلاکتیں

پاکستانی کمیونٹی کی حالیہ ہلاکتوں میں 50 سالہ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر فرقان علی صدیقی شامل ہیں، جو 6بچوں کے والد تھے جو اپنی موت سے 4 ہفتے قبل سے وینٹیلیٹر پر موجود تھے، وہ مانچسٹر رائل انفرمری میں فرنٹ لائن پر کام کر رہے تھے اور وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔

وہ حال ہی میں مانچسٹر چلے گئے تھے اور وہ اپنی این ایچ ایس کی تربیت کے اختتام کے قریب تھے، ان کی اہلیہ خود بھی ڈاکٹر ہیں جبکہ ان کے بچے پاکستان میں رہتے ہیں۔

ایک اور برطانوی نژاد پاکستانی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ناصر خان 29 اپریل کو ایک ہفتے تک کورونا وائرس سے لڑنے کے بعد وفات پا گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے صحتیاب کچھ افراد مختلف مسائل کا شکار رہ سکتے ہیں، ماہرین

وہ نومبر سے ویسٹ یورک شائر کے ضلعی ہسپتال اور ڈیوز بری میں کام کررہے تھے، ان کے دوستوں کی جانب سے ڈاکٹر ناصر خان کی اہلیہ اور بچوں کی مدد کے لیے بنائے گئے آن لائن فنڈ ریزنگ پیج پر 50 ہزار یورو کے ہدف کے مقابلے میں 44 ہزار یورو اکٹھے کیے جاچکے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ ماہ اپریل کے آخری ہفتے میں 46 سالہ مامونا رانا بھی وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئیں، وہ بک ہرسٹ ہل ایسکس میں ماہر نفسیات کے طور پر کام کرتی تھیں۔

ادھر 57 سالہ ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ خالد جمیل 14 اپریل کو اپنی کام کی جگہ واٹفورڈ جنرل ہسپتال میں تین روز تک وائرس سے لڑنے کے بعد انتقل کرگئے، سینٹ البانس سے تعلق رکھنے والے دو بچوں کے والد مارچ 2006 سے ویسٹ ہرٹفورڈشائر ہاسپٹلز این ایچ ایس ٹرسٹ کے ساتھ منسلک تھے۔

علاوہ ازیں 6 اپریل کو 79 سالہ سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر سید ذیشان حیدر بارکنگ اور داگنہم میں کورونا وائرس سے انتقال کر گئے جہاں وہ والنس میڈیکل سینٹر میں سینئر پارٹنر تھے۔

اس سے قبل وہ 30 سال سے زیادہ عرصے تک رائل لندن ہاسپٹل برائے انٹیگریٹڈ میڈیسن میں سینئر ہومیوپیتھک فزیشن کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

3 اپریل کو ، 36 سالہ این ایچ ایس نرس اریما نسرین کورونا وائرس کا شکار ہونے اور انتہائی نگہداشت میں اپنی زندگی کے لیے لڑنے کے بعد فوت ہوگئیں۔

انہیں مغربی مڈلینڈز کے والسال مینور ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا جہاں وہ ایکٹیوٹ میڈیکل یونٹ میں کام کرتی تھیں، 3 بچوں کی والدہ کو جنوری 2019 میں نرسنگ کا لائسنس ملا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں