نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے کچھ مریضوں میں مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں، جن سے عندییہ ملتا ہے کہ انفیکشن کے بعد صحت پر طویل المعیاد اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اگرچہ زیادہ تر تحقیق کورونا وائرس سے نظام تنفس سے مرتب ہونے والے اثرات پر ہورہی ہے مگر حالیہ ہفتوں میں متعدد ایسے طبی مقالے شائع ہوئے ہیں، جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس جسم اور دماغ کی گہرائیوں تک جاتا ہے۔

کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے سینٹر فار سلیپ اینڈ Chronobiology کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ہاروے مولڈوفسکی نے برطانوی روزنامے ٹیلیگراف سے بات کرتے ہوئے کہا 'ہم اس وبا کے طویل المعیاد اثرات کو سمجھنے کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں، مگر یہ واضح ہے کہ یہ صرف پھیپھڑوں پر حملہ آور نہیں ہوتا، بلکہ ہر جگہ ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا ' سارس کورونا وائرس کے میرے تجربے کی بنیادی پر میں نئے وائرس کے مریضوں کے ریکور ہونے کے تعین کے حوالے سے تشویش زدہ ہوں، ایسا ممکن ہے کہ کچھ مریضوں کو ابتدائی انفیکشن کے بعد کئی ماہ یا برسوں تک شدید تھکاوٹ کا باث بننے والے سینڈرومز یا سی ایف یاس کا سامنا ہوسکتا ہے'۔

سی ایف ایس سے مختلف علامات بشمول شدید تھکاوٹ، بغیر کسی وجہ کے مسلز یا جوڑوں میں تکلیف، سردرد اور خراب نیند کا سامنا ہوتا ہے۔

ایسے شواہد موجود ہیں کہ کسی وائرل انفیکشن کے بعد سی ایف ایس کا مسئلہ لوگوں کو لاحق ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ہاروے مولڈوفسکی کی کینیڈا میں 2002 میں ساروس وبا کے حوالے سے ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کچھ مریضوں کو سی ایف ایس کی علامات کا سامنا کئی برس تک ہوا اور سارس جینیاتی طور پر اس نئے نوول کورونا وائرس سے بہت زیادہ قریب ہے۔

یہ تحقیق 2011 میں شائع ہوئی تھی جس میں سارس کے 22 مریضوں کا جائزہ لیا گی اتھا جو صحتیاب ہوگئے تھے مگر طبی مسائل کے باعث وہ اپنے کام پر واپس لوٹ نہیں سکے تھے۔

اس تحقیق میں 273 افرد کو دیکھا گیا تھا جن میں سے 8 فیصد مریضوں میں یہ مسائل سامنے آئے۔

20019 یں جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ایک اور تحقیق میں دریافت کیا کہ 369 سارس وائرس کو شکست دینے والے افراد میں سے 40 فیصد میں سی ایف ایس کا مسئلہ سامنے آیا۔

برطانیہ کی ایسٹ اینگیلا یونیورسٹی میڈیسین پروفیسر پال ہنٹر کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں سی ایف ایس کے مسئلے کی شرح کم ہوسکتی ہے کیونکہ سارس زیادہ شدت والے مرض کا باعث بنتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا 'فی الحال کوئی تخمینہ لگانا قبل از وقت ہوگا مگر میرے خیال میں بہت کم افراد کو شدید تھکاوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہوگا'۔

سی ایف ایس کے شکار افراد میں بہت زیادہ تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے جو آرام کے باوجود ختم نہیں ہوتا۔

مگر ماہرین نے کہا ہے کہ کووڈ 19 کے طویول المعیاد اثرات کے حوالے سے تحقیقیاتی رپورٹس پر کام کو ترجیح بنایا جانا چاہیے۔

اس سے قبل مارچ کے وسط میں ہاکنگ کانگ میں طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑے کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کو تیز چلنے پر سانس پھولنے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ ہاسپٹل اتھارٹی نے یہ نتیجہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ابتدائی مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ 12 میں سے 2 سے تین مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش میں تبدیلیاں آئیں۔

ہسپتال کے انفیکشیز ڈیزیز سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اوئن تسانگ تک ین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا 'ان افراد کا سانس کچھ تیز چلنے پر پھول جاتا ہے، جبکہ مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مرض کے طویل المعیاد اثرات کا تعین کرنا ابھی تو قبل از وقت ہے مگر 9 مریضوں کے پھیپھڑوں کے اسکین میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کے مزید ٹیسٹ کرکے تعین کیا جائے گا ان کے پھیپھڑوں کے افعال اب کس حد تک کام کررہے ہیں جبکہ پھیپھڑوں کی مضبوطی کے لیے فزیوتھراپی کا انتظام بھی کیا جائےگا۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ صحت یاب مریض مختلف ورزشوں جیسے سوئمنگ سے اپنے پھیپھڑوں کو بتدریج مکمل صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کی گہرائی میں یہ وائرس موجود ہوسکتا ہے۔

جریدے جرنل سیل ریسرچ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے کچھ مریضوں میں صحتیابی کے بعد اس وائرس کی دوبارہ تشخیص ہوتی ہے۔

چین کی آرمی میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس سے پہلی بار پھیپھڑوں میں اس وائرس کے ذرات موجود رہنے کے شواہد ملتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے مریض میں، جس کے 3 مسلسل ٹیسٹ نیگیٹو آئے تھے۔

اس تحقیق کے نتائج ایک 78 سالہ مریضہ کے پوسٹمارٹم سے مرتب کیے گئے جو کورونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں اور ان کا علاج ہوا۔

علاج کے بعد وہ صحتیاب ہوگئیں اور 3 بار ٹیسٹوں میں نیگیٹو نتائج سامنے آئے تھے مگر ایک دن بعد اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

موت کے بعد پوسٹمارٹم میں اہم اعضا جیسے دل، جگر اور جلد پر وائرس کے آثار نہیں ملے مگر اس کی کچھ اقسام پھیپھڑوں کی گہرائی میں دریافت کی گئیں۔

یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب جنوبی کوریا اور چین میں اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد کے دوبارہ ٹیسٹوں میں اس کی تصدیق ہوگئی تھی۔

درحقیقت کچھ افراد میں تو ابتدائی نیگیٹو ٹیسٹ کے 2 ماہ بعد وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں