کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھتے ہی ہسپتالوں پر دباؤ میں اضافہ

اپ ڈیٹ 09 جون 2020
کراچی میں کل 389 ایچ ڈی یو بیڈز میں سے 213 اور 181 آئی سولیشن بیڈز میں سے 152 بھرے ہوئے ہیں— فائل فوٹو:ڈان
کراچی میں کل 389 ایچ ڈی یو بیڈز میں سے 213 اور 181 آئی سولیشن بیڈز میں سے 152 بھرے ہوئے ہیں— فائل فوٹو:ڈان

کراچی:پاکستان میں جہاں کورونا وائرس کے کیسز عروج پر ہیں وہیں ملک کے تقریباً تمام بڑے ہسپتالوں کی صلاحیت بھی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 22 نجی اور سرکاری ہسپتال کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ان 22 ہسپتالوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار 48 آئیسولیشن بیڈز تھے جن میں سے پیر (8 جون) تک 173 بھرے ہوئے تھے اور 875 خالی تھے۔

سندھ میں مجموعی طور پر ہائی ڈپینڈینسی یونٹس (ایچ ڈی یو) میں کُل 486 بستر ہیں جن میں سے 237 بھرے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ان ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یو) میں 240 وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 60 پر مریض موجود ہیں۔

کراچی کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے

صرف کراچی میں 31 ہزار سے زائد کیسز ہیں جس کی وجہ سے میٹروپولیٹن شہر میں نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں صلاحیت کی کمی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ضیاالدین ہسپتال نارتھ ناظم آباد میں 6 بستروں کے علاوہ کراچی میں آئی سی یو یونٹس میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی روک تھام : پنجاب میں چین جیسا حیران کن کام ممکن بنالیا گیا

صوبائی دارالحکومت میں کُل 389 ایچ ڈی یو بیڈز میں سے 213 اور 181 آئیسولیشن بیڈز میں سے 152 بھرے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (سینٹر) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ڈاکٹرز روز اول سے ہی اس مشکل صورتحال کے بارے میں خبردار کرتے آرہے تھے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ‘ہمارے پاس صحت کا ایسا نظام موجود نہیں ہے جو ایک مقررہ وقت میں بڑی تعداد میں مریضوں کو لے سکے‘۔

ان کے مطابق فی الحال کراچی کے بڑے ہسپتال بشمول آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، انڈس ہسپتال، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (اوجھا کیمپس)، ساؤتھ سٹی ہسپتال اور ضیاالدین یونیورسٹی ہسپتال نے مریضوں کو لینا بند کردیا ہے۔

انہوں نے کہا ’یہ ہسپتال کسی نئے مریض کو لینے کے بجائے پہلے سے ایچ ڈی یو میں زیر علاج مریض کو وینٹی لیٹر پیش کرنے کو ترجیح دیں گے‘۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘اسی طرح کی صورتحال سندھ کے اندرونی حصوں میں پائی جاتی ہے، فی الحال لیاری جنرل ہسپتال جیسے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر دستیاب ہیں جہاں زیادہ تر خاندان اپنے مریضوں کو داخلے کے لیے لے جانا پسند نہیں کریں گے‘۔

پاک نگہبان ایپ

ادھر محکمہ صحت سندھ کے مطابق سول ہسپتال کراچی، شہید محترمہ بینظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سینٹر، ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)، لیاری جنرل ہسپتال، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ)، انڈس ہسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر ضیاالدین ہسپتال کلفٹن اور نارتھ ناظم آباد اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) کراچی میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔

حکومت کی پاک نگہبان ایپ کے مطابق وینٹی لیٹر صرف لیاری جنرل ہسپتال میں دستیاب ہیں جبکہ سول اسپتال، جے پی ایم سی، ایس آئی یو ٹی اور آغا خان محدود صلاحیت پر چل رہے ہیں۔

ایپ کے مطابق انڈس ہسپتال، این آئی سی ایچ، اور ڈاکٹر ضیاالدین ہسپتال کی تمام شاخوں میں کوئی بستر/وینٹیلیٹر دستیاب نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہونے پر ہسپتالوں میں بستروں کی کمی

ایپ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہر کے دوسرے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق صرف مذکورہ ہسپتال ہی کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر سجاد نے کہا کہ ’یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک سنگین نوعیت کے مریض کی دیکھ بھال کے لیے صرف وینٹی لیٹر ہی نہیں بلکہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تکنیکی آلات کو چلانے میں مہارت انتہائی ضروری ہے ورنہ ناقص تربیت یافتہ عملہ مریض کو ہلاک کرسکتا ہے، تکنیکی مہارت کے بغیر وینٹی لیٹر رکھنا ڈرائیور کے بغیر گاڑی رکھنے کے برابر ہے‘۔

ہسپتال کے بستروں کی دستیابی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آئیسولیشن سہولیات میں بستر دستیاب ہیں لیکن جو چیز چیلنج بن کر سامنے آئی ہے وہ سنگین مریضوں کو معیاری نگہداشت فراہم کرنا ہے۔

پنجاب میں 452 وینٹی لیٹر دستیاب

دوسری جانب پنجاب میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبائی حکومت نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 568 وینٹی لیٹر مختص کیے ہیں۔

6 جون کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 568 وینٹی لیٹرز میں سے 116 زیر استعمال تھے جبکہ 452 خالی تھے۔

اسی طرح ان صحت کی سہولیات میں 42 ہزار 983 بستر بھی تھے جو دو الگ الگ محکموں کے تحت آتے ہیں جن میں ایک محکمہ صحت کی خصوصی نگہداشت اور میڈیکل ایجوکیشن (ایس ایچ اینڈ ایم ای ڈی) اور دوسرا پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ (پی اینڈ ایس ایچ ڈی) ہے۔

سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 7 ہزار 544 کورونا وائرس مریضوں کے لیے آئیسولیشن وارڈ میں مختص کیے گئے تھے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان بستروں میں سے ایک ہزار 405 بھرے ہوئے تھے جبکہ باقی 6 ہزار 139 خالی تھے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے شکار مریض کی ہسپتال میں 71 ویں سالگرہ

اسی طرح کورونا وائرس کے لیے مختص کُل بستروں میں سے 944 ایچ ڈی یوز کے لیے ہیں جن میں سے 381 بھرے ہوئے اور 537 خالی ہیں۔

کے پی میں مزید بستروں کی ضرورت

خیبرپختونخوا کی صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر زبیر ظاہر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ہمیں خدشہ ہے کہ صوبہ تیزی سے ایسی صورتحال کی طرف جارہا ہے جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کو لینے کے لیے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ پشاور کے بیشتر ہسپتالوں میں بستر ختم ہوگئے ہیں اور حکومت کو متاثرہ مریضوں پر توجہ دینی چاہیے اور مریضوں کے مؤثر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اضافی بستروں اور وینٹی لیٹرز کے لیے فوری انتظامات کرنے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریض موجود ہیں اور ان کے لواحقین بستر کی تلاش میں ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال چکر لگارہے ہیں تاہم انہیں کچھ حاصل نہیں ہورہا۔

ڈاکٹر زبیر ظاہر نے کہا کہ حکومت کورونا وائرس کے سنگین مریضوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے وینٹی لیٹرز کے ساتھ بستروں کا بھی انتظام کرے۔

ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ حکومت مریضوں کے لیے پشاور میں ایک ٹیچنگ ہسپتال مختص کرے یا اس مقصد کے لیے فیلڈ ہسپتال قائم کرے۔

بلوچستان کی گنجائش

ادھر بلوچستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 2 ہزار 148 بستر دستیاب ہیں۔

کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے شیخ زید ہسپتال میں 225 بستر، فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال اور سول اسپتال میں صرف 30 بستر اور بولان میڈیکل کالج ہسپتال میں 50 بستر دستیاب ہیں۔

صوبے میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کُل 93 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔

ان وینٹی لیٹروں میں سے 82 سرکاری ہسپتالوں میں اور 11 کوئٹہ کے نجی ہسپتالوں میں ہیں۔


کراچی سے فائزہ الیاس اور رمشا جہانگیر، لاہور سے آصف چوہدری، پشاور سے اشفاق یوسفزئی اور کوئٹہ سے سلیم شاہد نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں