کوہستان کے علما کا غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے میں مدد کرنے کا اعلان

علما نے پولیس کی کاوشوں کی تعریف کی—فائل فوٹو: ابرو
علما نے پولیس کی کاوشوں کی تعریف کی—فائل فوٹو: ابرو

مانسہرہ: ضلع لوئر کوہستان کے علما اور مذہبی اسکالرز کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف پولیس کی خصوصی مہم کا حصہ ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پتن میں لوئر کوہستان کے ضلعی ہیڈکوارٹرز کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سلمان خان کی جانب سے بلائے گئے ایک اجلاس میں مولانا دلدار احمد نے کہا کہ 'ہم غیرت کے نام پر مرد اور خواتین کے قتل کو ختم کرنے اور لوگوں کو یہ ترغیب دینے کہ اس طرح کے قتل غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں کے لیے محکمہ پولیس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں'

اجلاس میں مولانا عبدالودود، مولانا امیز خان، مولانا دلدار احمد، مولانا کریم داد، مولانا حدیث خان، مولانا رضوان، مولانا اصرار، مولانا ظہر علائی اور مولانا عباس نے شرکت کی اور غیرت کے نام پر قتل اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے 3 مجرموں کو عمر قید کی سزا

مولانا کریم داد نے کہا کہ' صرف شک کی بنیاد پر مرد اور عورت کا قتل گناہ عظیم ہے اور اس کے ذمہ دار سخت ترین سزا کے مستحق ہیں'۔

قبل ازیں ڈی پی او سلمان خان کا کہنا تھا کہ ہزارہ ڈیوژن پولیس کے ڈی آئی جی قاضی جمیل الرحمٰن نے انہیں اور لوئر کوہستان اور کولائی پالاس کے ضلعی پولیس افسران کو کہا تھا کہ وہ غیرت کے نام پر قتل پر مؤثر کریک ڈاؤن کریں۔

انہوں نے کہا کہ ' یہ (غیرت کے نام پر قتل) کوہستانی معاشرے کے ساتھ منسلک ایک بدنما داغ ہے، اس سے بچنے کے لیے آپ کو لوگوں میں شعور بیدار کرنا چاہیے'۔

ڈی پی او کی جانب سے علما سے کہا گیا کہ وہ جمعہ کے خطبات اور دیگر پروگراموں میں اس مسئلے کو اجاگر کریں۔

خیال رہے کہ کوہستان میں کچھ سال قبل غیرت کے نام پر قتل کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جو کوہستال ویڈیو اسکینڈل کے نام سے مشہور ہے۔

اس واقعے میں خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: غیرت کے نام پر جوڑے کا قتل

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

علاوہ ازیں پشاور کے سیشن جج نے 5 ستمبر 2019 کو کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 لڑکیوں اور 2 لڑکوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے 3 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنادی۔

تبصرے (0) بند ہیں