حکومت اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں بڑا فرق

اپ ڈیٹ 10 جون 2020
آئی ایم ایف نے سال 2020-21 کے لیے ایف بی آر کے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف 51 کھرب روپے مقرر کیا۔ فائل فوٹو:رائٹرز
آئی ایم ایف نے سال 2020-21 کے لیے ایف بی آر کے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف 51 کھرب روپے مقرر کیا۔ فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: حکومت مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں ریونیو ہدف 45 کھرب سے 46.7 ارب روپے کے درمیان طے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

فنانس ڈویژن کے ذرائع کے مطابق حالیہ اجلاسوں میں حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عہدیداروں کے ساتھ ریونیو اہداف شیئر کیے تاہم ریونیو کے منصوبے پر آئی ایم ایف کی منظوری میں تاخیر ہوئی ہے اور اس معاملے کو جون کے تیسرے ہفتے میں طے شدہ میٹنگ کے دوران اٹھایا جائے گا۔

فنانس ڈویژن کے ذرائع نے پیر کو ڈان کو بتایا کہ حکومت منظوری کے حصول کے لیے فنڈ حکام کے ساتھ پہلے ہی اپنی ریونیو وصول کرنے کی تجاویز کو شیئر کر چکی ہے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے تاجر کو 10 سال کے مقررہ وقت کے بجائے ایک ماہ میں 5 ارب روپے واپس کردیے

ذرائع نے بتایا کہ ’محصولات کی وصولی کے منصوبے کے بارے میں ہم نے آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے تفصیلی ملاقات کی‘۔

آئی ایم ایف نے سال 21-2020 کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف 51 کھرب روپے مقرر کیا ہے جو مالی سال 2020 کے مجوزہ وصولی اہداف سے 30 فیصد زیادہ ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ’ہم نے اپنا حساب کتاب آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اہداف کی منظوری ابھی باقی ہے۔

رواں سال کے لیے آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کے باعث کاروبار پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے ایف بی آر کے ٹیکس ہدف کو 48 کھرب روپے سے کم کرکے 39 کھرب روپے تک کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث ملکی معیشت کو 25 کھرب روپے کا نقصان

ذرائع کے مطابق حکومت معیشت پر لاک ڈاؤن کے اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ میں اپنے محصولاتی ہدف کا اعلان کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ حکومت بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کرسکتی کیونکہ لوگ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے نئے ٹیکس اقدامات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘۔

آئی ایم ایف کے عہدیداروں اور حکومت نے گزشتہ سال متعارف کرائے گئے بڑے ٹیکس اقدامات کے تسلسل پر ایک سمجھوتہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امیر لوگوں کو ٹیکس مراعات دینے سے گریز کرے۔

آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان صرف ان شعبوں کو مراعات دینے پر توجہ دے جس میں کمزور اور غریب عوام کو فائدہ ہو۔

ذرائع نے بتایا کہ ’ہم نے ان مقاصد کے لیے کچھ شعبوں کی نشاندہی کی ہے، آئی ایم ایف عام ٹیکس مراعات کے منافی ہے‘۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز کے ملازمین کا کیا قصور ہے، اسدعمر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ مشاہد اللہ

اسی کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ برآمدات پر مبنی پانچ شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، کھیلوں، سرجیکل، قالین اور چمڑے کے لیے متعارف کرائے گئے موجودہ ٹیکس نظام کو جاری رکھے۔

ذرائع نے بتایا کہ ’بجٹ میں کسی بھی زیرو ریٹنگ پر غور نہیں کیا جائے گا اور 17 فیصد کے معیاری سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی‘۔

بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس قوانین، طریقہ کار کو آسان کرنے پر توجہ دی جائے گی جبکہ دیگر اقدامات میں انتظامی تبدیلیاں شامل ہیں۔

ایف بی آر کا تخمینہ ہے کہ جزوی طور پر لاک ڈاون باقی رہنے کی صورت میں آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں 450 ارب روپے کے محصولاتی نقصان کا امکان ہے۔

ایف بی آر نے پیش گوئی کی ہے کہ لاک ڈاؤن میں توسیع کی صورت میں ٹیکس ادارے میں 350 ارب روپے کا مزید شارٹ فال دیکھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں