سینیٹرز کی فنانس بل میں 2 کمپنیوں کو خصوصی فائدہ پہنچانے کی مخالفت

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
سینیٹ کمیٹی نے پوچھا کہ ان کمپنیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ —فائل فوٹو: اے پی
سینیٹ کمیٹی نے پوچھا کہ ان کمپنیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ —فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: سینیٹ پینل نے فنانس بل 21-2020 کے ذریعے گوادر میں چلنے والی 2 کمپنیوں کو ٹیکس فوائد پہنچانے کی مخالفت کردی جبکہ کچھ اراکین نے اسے 'بیہودہ، مضحکہ خیز اور چونکا دینے والا' قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بارہا پوچھا کہ 'ان کمپنیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ کسی کمپنی کا نام قانون میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے؟'

سینیٹر فاروق حامد نائیک کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو نے یہ اصول بھی طے کیا کہ آئین کے آرٹیکل 73 کے تحت کسی شق کو فنانس بل میں شامل کرنے کی منظوری نہیں دے گا اگر وہ کسی ٹیکس کے نفاذ، خاتمے، معافی یا رد و بدل سے متعلق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: صوبوں سے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے 110 ارب روپے مختص کرنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو بل میں کوئی چیز شامل کرنے کی بھی اجازت نہیں دینی چاہیے اگرچہ اس میں کسی جرمانے کا نفاذ یا تبدیلی یا کوئی دیگر جرمانہ یا لائسنس فیس کی ادائیگی یا مطالبہ یا کسی خدمات کی فیس یا کوئی ٹیکس مقامی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں۔

کمیٹی اراکین نے کسٹمز قوانین (شق i-a/19-3) میں آلات اور مواد بشمول پلانٹ، مشینری اور مراعات رکھنے والوں کی جانب سے درآمد کردہ سامان، ان کی آپریٹنگ کمپنیوں بشمول گوادر انٹرنیشنل ٹرمینلز لمیٹڈ اور گوادر میرین سروسز، ان کے ٹھیکیدار اور ذیلی ٹھیکیدار خصوصاً تعمیراتی، ٹرمینلز اور فری زون ایریا کے آپریشن کے لیے 40 سال کی مدت تک کسٹمز ڈیوٹیز پر استثنیٰ سے متعلق مجوزہ ترمیم کی مخالفت کی۔

خیال رہے کہ موجودہ کسٖٹمز قوانین کے تحت استثنی موجود ہے لیکن ان دونوں کمپنوں کے نام خاص طور پر شامل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر عتیق شیخ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز نے ان کمپنیوں کا نام لیے بغیریاد دلایا کہ سینیٹ پینل میں اسی طرح کی شق پیش کی گئی اور اسے مسترد کردیا گیا تھا کیونکہ کسی کمپنی کو ایسی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ 'قانون میں کسی کمپنی کو نام سے ٹیکس سہولت دینا بیہودہ ہے'۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ 'یہ چونکا دینے والا ہے'۔

سینیٹرز نے کہا کہ گوادر میں ایسے آلات اور مشینری کے مخصوص استعمال کو محدود کرنا ناممکن ہے۔

مصدق ملک نے پوچھا کہ اس بات کی یقین دہانی کے لیے کیا طریقہ کار ہے کہ گوادر کے لیے ڈیوٹی استثنیٰ سے درآمد ہونے والا ٹرک ساہیوال یا حیدرآباد کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کمپنیاں اور ان کے ذیلی ٹھیکیدار، جنرل ضیا الحق سے زیادہ اہم معلوم ہوتے ہیں جن کا نام آئین میں لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 21-2020: سبسڈی بل میں 40 فیصد تک کٹوتی

سینیٹر شیری رحمٰن کمپنیوں کے مالکان یا ان کے ذیلی کنٹریکٹرز سے متعلق جاننا چاہتی تھیں، انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حیران کن ہے کہ قانون میں استثنیٰ پہلے ہی موجود ہے لیکن اسے کمپنی کے لیے مخصوص بنایا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ ٹھیکیدار اور ذیلی ٹھیکیدار ایک خاندان کے 'قریبی اور عزیز' ہیں جو 2 دہائیوں سے بزنس کا تحفظ چاہتے ہیں، یہ مضحکہ خیز ہے۔

کسٹمز کے اراکین نے کہا کہ یہ ترمیم وزارت بحری امور کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ پر حکومت سے حکومت کے معاہدے کی بنیاد پر پیش کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گوادر سے متعلق قانون میں تبدیلی کے لیے وزارت کی جانب سے کابینہ میں سمری ارسال کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں کمیٹی اراکین نے فری زون ایریا کے لیے جولائی 2016 سے 23 سال کے لیے کاروبار، جیسا کہ پیکجنگ، تقسیم، اسٹفنگ، ڈی اسٹفنگ، سی ایف ایس، کنٹینر یارڈ، ویئر ہاؤسنگ، ٹرانس شپمنٹ، لیبلنگ، درآمد اور برآمد کی ویلیو ایڈیشن سے متعلق ٹیکس استثنیٰ کی ترمیم کی بھی مخالفت کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں