گوادر پورٹ کا کنٹریکٹ ' خفیہ' ہے، تفصیلات سامنے نہیں لاسکتے، سیکریٹری بحری امور

چیئرمین کمیٹی کےمطابق ان کیمرا اجلاس میں کنٹریکٹس کی کاپیاں ایک گھنٹے کے لیے پیش کی جائیں پھر واپس جمع کرلیں
—فائل فوٹو: اے ایف پی
چیئرمین کمیٹی کےمطابق ان کیمرا اجلاس میں کنٹریکٹس کی کاپیاں ایک گھنٹے کے لیے پیش کی جائیں پھر واپس جمع کرلیں —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری کی جانب سے بتایا گیا کہ گودار پورٹ کے امور سے متعلق کنٹریکٹ 'خفیہ' ہے اور اس کی تفصیلات عوامی سطح پر ظاہر نہیں کی جاسکتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر فاروق حامد نائیک کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے وفاقی سیکریٹری برائے بحری امور رضوان احمد کو گودار فری زون سے متعلق کنٹریکٹس اور سب -کنٹریکٹس دیے جانے کے حوالے سے کنٹریکٹس کا کاپیاں اور متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کا کہا تھا۔

رضوان احمد نے جواب دیا تھا کہ دستاویزات کو سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا اور معاہدے کا ایک پیراگراف پڑھا جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کے مندرجات کو خفیہ رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سینیٹرز کی فنانس بل میں 2 کمپنیوں کو خصوصی فائدہ پہنچانے کی مخالفت

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے فنانس بل 2020 میں ٹیکس چھوٹ آرڈیننس شامل ہونے کے باعث یہ معاملہ گزشتہ 3 روز سے سینیٹ کمیٹی میں زیر غور ہے، یہ بل ایک مرتبہ توسیع کے بعد ختم ہوگیا ہے۔

جب سیکریٹری برائے بحری امور نے کہا کہ کنٹریکٹس کی کاپیاں شیئر نہیں کی جاسکتی تو سینیٹرز ڈاکٹر مصدق ملک، عائشہ رضا، طلحہ محمود اور عتیق شیخ نے غصے اور ناراضی کا اظہار کیا۔

جس کے بعد چیئرمین سینیٹ کمیٹی نے ان کیمرا اجلاس کی تجویز دی جس میں کنٹریکٹس کی دستاویزات کی کاپیاں ایک گھنٹے کے لیے پیش کی جائیں گی اور پھر واپس جمع کرلی جائیں گی۔

سینیٹر عتیق شیخ نے سیکریٹری بحری امور کو بتایا کہ وہ سینیٹر کو حکم نہیں دے سکتے جس پر رضوان احمد نے جواب دیا کہ وہ چیئرمین کمیٹی کو آگاہ کررہے تھے۔

آخر کار سیکریٹری بحری امور کمیٹی ارکان کے ساتھ آئندہ منگل (23 جون) کو کنٹریکٹس کی کاپیاں شیئر کرنے پر رضا مند ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ان کیمرا اجلاس سے قبل صح 10 بجے کاپیاں شیئر کی جائیں گی اور اجلاس ختم ہونے کے فوراً بعد جمع کرلی جائیں گی۔

خیال رہے کہ حکومت نے 2006 میں گوادر کی بندرگاہ سے متعلق سنگاپورین کمپنی سے معاہدہ کیا تھا جو بعدازاں 2013 میں چینی کمپنی کو دیا گیا تھا، کنٹریکٹس کی کاپیاں شیئر کرنے کی ضرورت وزارت بحری امور کے متضاد بیانات کے بعد محسوس ہوئی۔

سینیٹر فاروق احمد نائیک نے کہا کہ ہم کنٹریکٹس کا صرف جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ 40 برس تک ٹیکس استثنیٰ دینے کی اجازت سے متعلق تصدیق کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: صوبوں سے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے 110 ارب روپے مختص کرنے کا مطالبہ

جس پر سیکریٹری بحری امور نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کنٹریکٹرس کی کاپیاں ماضی میں کبھی قانون سازوں کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں۔

علاوہ ازیں کمیٹی نےکنٹریکٹرز اور سب کنٹریکٹرز کی فہرست پر ناراضی کا اظہار کیا جس پر رضوان احمد نے کہا کہ کنٹریکٹس دینے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کنٹریکٹس کی فہرست فراہم کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے درخواست کی ہے اور دستاویزات حاصل کرنے کے بعد انہیں کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ چند روز قبل سینیٹ پینل نے فنانس بل 21-2020 کے ذریعے گوادر میں چلنے والی 2 کمپنیوں کو ٹیکس فوائد پہنچانے کی مخالفت کی تھی جبکہ کچھ اراکین نے اسے 'بیہودہ، مضحکہ خیز اور چونکا دینے والا' قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں