انسداد دہشتگردی عدالت نے توہین مذہب کے ملزم کے قتل کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

ملزم عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ملزم عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کمرہ عدالت میں توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے قتل کا ریکارڈ طلب کرلیا چونکہ مشتبہ نوجوان قاتل کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے درخواست میں جواب کے لیے ریاستی پراسیکیوٹر کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

مزید برآں عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے 15 اگست کی تاریخ مقرر کردی۔

خیال رہے کہ ملزم کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں مختلف بنیادوں پر ضمانت کی استدعا کی گئی ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایک اسلامی ملک میں قرآن پاک اور سنت سب سے اعلیٰ قوانین ہیں اور دیگر تمام قوانین اس کے ماتحت ہیں۔

عدالت میں دائر اس 10 صفحات پر مشتمل درخواست میں زیادہ تر قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں اور 'مشتبہ قاتل کی جانب سے زور دیا گیا ہے کہ مرتد واجب القتل تھا'۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل

اگرچہ پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملزم کی عمر 17 برس کے قریب ہے تاہم درخواست گزار کا اصرار ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے 14 سال کا ہے اور اس معاملے میں کی گئی تفتیش جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کی لازمی دفعات کی خلاف ورزی تھی۔

واضح رہے کہ 29 جولائی کو پشاور کی جوڈیشل کمپلیکس میں کمرہ عدالت کے اندر توہین مذہب و رسالت کے ملزم ایک امریکی شہری طاہر احمد نسیم کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

اور موقع پر ہی مشتبہ قاتل کو گرفتار کرلیا گیا تھا جو اس وقت پشاور سینٹرل جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہے۔

اس قتل کی ایف آئی آر ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت درج ہوئی تھی۔

ملزم کی جانب سے شبیر حسین گیگیانی، محمد انعام یوسف زئی، بیرسٹر امیر اللہ خان، قیصر زمان خان، عبدالولی اور شکیل احمد خیل پر سمیت وکلا کے پینل نے درخواست جمع کروائی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہیں جرم کے ساتھ جوڑنے کے لیے ریکارڈ پر کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک مسلمان کے ہاتھوں کسی ایسے شخص کا قتل جو مرتد ہوگیا ہو، اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں جرم نہیں ہے اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 76، 79 اور 81 میں یہ عام استثنیٰ کے زمرے میں آتا ہے'۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ '25 اپریل 2015 کو سربند تھانے میں مقتول طاہر احمد نسیم کے خلاف درج مقدمے کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینل پر آیڈیو، ویڈیو اور ٹیکس مواد موجود ہے جس میں وہ مرتد ہوا'۔

ساتھ ہی درخواست گزار نے اپنے خلاف مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کو شامل کرنے پر بھی سوال کیا اور کہا کہ کیس کے حقائق اور نوعیت، لوگوں کے جذبات اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں اے ٹی اے کیس پر لاگو نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ مقتول کے خلاف 25 اپریل 2018 کو سربند تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 153 اے، 295 اے، 295 بی، 295 سی اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ان دفعات میں توہین مذہب و توہین رسالت کی دفعات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور جوڈیشل کمپلیکس کے کمرہ عدالت میں توہین مذہب کا ملزم قتل

اس مقدمے میں شکایت کنندہ نوشہرہ کا رہائشی اور اسلام آباد کے مدرسے میں پڑنے والا شخص ملک اویس تھا۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ مرنے والا شخص جھوٹے مذہبی دعوے کرتا ہے اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اسے خوابوں میں وہی نازل ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں 4 فروری 2019 کو مقتول پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153 اے، 295 اے اور 298 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں