بین الافغان مذاکرات میں شامل سرکاری ٹیم کی خاتون رکن قاتلانہ حملے میں زخمی

16 اگست 2020
فوزیہ کوفی 2005 میں افغان پارلیمنٹ میں پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکرمنتخب ہوئی تھیں—فوٹو:اے پی
فوزیہ کوفی 2005 میں افغان پارلیمنٹ میں پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکرمنتخب ہوئی تھیں—فوٹو:اے پی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل دی گئی سرکاری ٹیم کی رکن اور انسانی حقوق کی رہنما فوزیہ کوفی مسلح افراد کے حملے میں زخمی ہوگئی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ 45 سالہ فوزیہ کوفی اور ان کی بہن صوبہ پروان میں ایک اجلاس کے بعد واپس آرہی تھیں کہ کابل کے قریب مسلح افراد نے انہیں نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں:بین الافغان مذاکرات کے لیے باضابطہ ایجنڈا طے نہیں کیا گیا

انہوں نے کہا کہ کوفی کے دائیں بازو میں گولی لگی ہے اوران کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

خیال رہے کہ سابق رکن پارلیمان اور طالبان کی سخت ناقد تھیں، اب وہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں شریک ہیں۔

طالبان نے اپنے بیان میں کوفی پرحملے میں ملوث ہونے کی تردید کردی ہے۔

افغان صدر کے ترجمان صدیق صادق کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی نے حملے کی پرزور مذمت کی اور اس کو بزدالانہ قدم قرار دیا ہے۔

قومی مصالحتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے افغان حکام سےکہا کہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے پر لایاجائے۔

افغان انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ شہرزاد اکبر نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ہدف بناکر کیے گئے حملے پر پریشانی ہے، جس سے امن عمل پر قائم اعتماد پرمنفی اثر پڑسکتا ہے۔

قبل ازیں حالیہ مہینوں میں کابل میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور رہنماؤں پر حملے ہوتے رہے ہیں اور فوزیہ کوفی خود 2010 میں ایک قاتلانہ حملے میں بچ گئی تھیں۔

فوزیہ کوفی 2010 میں کابل میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب سے واپس آرہی تھیں تو مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان کی طاقتور مذاکراتی ٹیم تشکیل، پاکستان کے قریبی رہنما خان متقی ٹیم سے باہر

فوزیہ کوفی طالبان سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی ٹیم میں شامل چند خواتین میں سے ایک ہیں جس نے 2019 میں مذاکرات کے متعدد دور کیے تھے۔

یہ مذاکرات امریکا اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری میں قطر میں ہوئے معاہدے الگ تھے اور اس وقت فوزیہ کوفی نے کہا تھا کہ انہیں دہشت گردوں کی جانب نیل پالش کے استعمال پر دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ بین الافغان مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائی گئی ٹیم میں فوزیہ کوفی سمیت 4 خواتین شامل ہیں۔

انہوں نے رواں ہفتے کہا تھا کہ 'میرے خیال میں اب ہم سنجیدہ مذاکرات کررہے ہیں، ایک فخر کا احساس ہے لیکن اس کے ساتھ بہت زیادہ دباؤ بھی ہے'۔

فوزیہ کوفی نے کہا تھا کہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ ہرطرح سے مکمل ہیں۔

یاد رہے کہ 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور 2005 میں بننے والی پارلیمنٹ میں فوزیہ کوفی افغانستان کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئی تھیں۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جلد ہی مذاکرات متوقع ہیں تاکہ دودہائیوں پر مشتمل طویل خانہ جنگی کا خاتمہ ہو۔

افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے تقریباً 400 قیدیوں کی رہائی سے ملک میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا معاہدے کے 'اگلے مرحلے' میں داخل ہونے کے ساتھ طالبان پر تشدد میں کمی پر زور

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سفارت کار کا کہنا تھا کہ 'ہم امید کر رہے ہیں کہ اگلے 10 دنوں میں کچھ ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے'۔

امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو آزاد کرنے کے بدلے میں 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔

ان میں سے تقریبا 4 ہزار 600 کو پہلے ہی رہا کیا جاچکا ہے تاہم کابل باقی 400 افراد کو رہا کرنے سے کترا رہا تھا جنہیں خطرناک قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازاں یہ معاملہ لویا جرگہ کے سامنے اٹھایا گیا جس نے ان کی رہائی کی توثیق کی جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے انہیں آزاد کرنے کے لیے صدارتی فرمان جاری کیا تھا۔

واضح رہے کہ جب ڈیڑھ سال سے ززائد عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد امریکا نے 29 فروری کو طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تو اسے 4 دہائیوں کی جنگ میں افغانستان کے امن کا بہترین موقع قرار دیا گیا، اسے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے روڈ میپ کے طور پر بھی دیکھا گیا جس سے امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ بھی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: امن معاہدہ: افغانستان سے سیکٹروں امریکی فوجیوں کا انخلا

اس معاہدے پر دستخط کے ساڑھے 4 ماہ بعد امریکا کی جانب سے مذاکرات کے سربراہ اور امن مندوب زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ کی کہ امریکا طالبان معاہدے پر عمل درآمد میں ایک اہم سنگ میل طے پایا ہے کیونکہ امریکی فوجیوں کی تعداد 12ہزار سے کم ہو کر 8ہزار 600 ہو گئی ہے اور افغانستان میں 5 اڈے بند کردیے گئے ہیں۔

یہاں تک کہ خلیل زاد نے افغان سیکیورٹی فورسز پر باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طالبان، امریکا اور نیٹو کے فوجیوں پر حملہ نہ کرنے کے اپنے قول کے سچے ہیں۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ طالبان کے تشدد سے کسی بھی امریکی نے افغانستان میں اپنی زندگی نہیں گنوائی اور علاقائی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں