شیروں کی ہلاکت کا معاملہ، زرتاج گل سمیت کئی اعلیٰ حکام طلب

اپ ڈیٹ 20 اگست 2020
جانوروں کو منتقل کرنے کے لیے قائم کمیٹی کی غفلت کے سبب چڑیا گھر سے نقل مکانی کرتے ہوئے دو شیر ہلاک ہوگئے تھے— فوٹو: اے ایف پی
جانوروں کو منتقل کرنے کے لیے قائم کمیٹی کی غفلت کے سبب چڑیا گھر سے نقل مکانی کرتے ہوئے دو شیر ہلاک ہوگئے تھے— فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد:اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر سے شیروں کی منتقلی کے دوران ہلاکت کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مملکت زرتاج گل، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم، مسلم لیگ (ن) کے سابق وزرا طارق فضل چوہدری اور مریم اورنگزیب، کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عامر علی احمد، اسلام آباد کے میئر عنصر عزیز شیخ اور متعدد دیگر افراد کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا ہے۔

جن دیگر افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹری ناہید ایس درانی، پارلیمانی سیکریٹری رخسانہ نوید، چیف میٹرو پولیٹن آفیسر سیدہ شفق ہاشمی، انسپکٹر جنرل جنگلات سلیمان خان، پنجاب کے جنگلات اور وائلڈ لائف سیکریٹری محمد آصف، خیبر پختونخوا کے جنگلات کے سیکریٹری شاہد اللہ، سینیٹر مشاہد حسین سید، زاہد بیگ مرزا، اعتزالدین، ​​وقار زکریا، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمن، ورلڈ وائلڈ لائف فیڈریشن کے ڈاکٹر غلام اکبر اور ایڈووکیٹ طارق حسن شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: دو شیروں پر تشدد اور قتل کا مقدمہ تین افراد کیخلاف درج

مریم اورنگزیب، طارق فضل چوہدری اور مشاہد حسین سید کو اس اس لیے شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں کیونکہ وہ آئی ڈبلیو ایم بی کے سابق عہدیدار تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سے لاہور منتقل کی جانے والی شیرنی کی دورانِ سفر موت

اپنے پہلے حکم میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جانوروں کو پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ کے مطابق شیروں کو لاہور کے قریب نجی فارم ہاؤس میں منتقل کیا جارہا تھا۔

سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیروں کی منتقلی کی تصویر کشی کرتی فوٹیج کے مطابق غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار عملے نے شیروں کے پنجرے کے ساتھ آگ جلاتے اور ان سے بدسلوکی کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

شیروں کی موت زخموں، جلنے کی چوٹ اور دھوئیں سے ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 اگست کو مشاہدہ کیا کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ توہین عدالت کے عدالتی آرڈیننس 2003 کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’جو لوگ جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں وہی تحقیقات کررہے ہیں‘

مئی میں جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ واحد ہاتھی کاون کے ساتھ ساتھ مرغزار چڑیا گھر میں زیر حراست دیگر جانوروں کو بھی اپنے اپنے ٹھکانوں میں منتقل کریں۔

بعد میں وزارت موسمیاتی تبدیلی اور آئی ڈبلیو ایم بی نے بعد میں عدالت کو بتایا کہ کاون کو کمبوڈیا کے جنگلی حیات کے ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا ہے کہ جانوروں کو پکڑنے اور انہیں قید میں رکھنے کا رواج ماضی کی ایک علامت ہے، یہ ایک جاندار کے ہاتھوں دوسرے جاندار مثلاً انسانوں سے رویے کی شرمناک عکاسی کرتا ہے, غیر ملکی جانوروں کو ان کی طاقت اور طاقت کی نمائش کے طور پر بادشاہوں، ملکوں اور دیگر شرفا نے اسیر کر کے رکھا ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیگر جانداروں کے ہاتھوں خصوصیت کے حامل جنگلی حیات کی تسخیر طاقت اور برتری کی علامت بن چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد چڑیا گھر کیس:وزیر مملکت زرتاج گل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

عدالتی حکم کے مطابق کسی جنگلی جانور کو انسانی جان کی حفاظت کے لیے تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔

جانوروں کو منتقل کرنے کے لیے قائم کمیٹی کی غفلت کے سبب چڑیا گھر سے نقل مکانی کرتے ہوئے دو شیر ہلاک ہوگئے تھے، سیکریٹریٹ پولیس میں کمیٹی کے اراکین کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

یہ خبر 20 اگست 2020 بروز جمعرات ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں