نیب کیس میں سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی کی بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی درخواست

26 اگست 2020
سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی—فائل فوٹو: فیس بک
سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے فنڈ میں مبینہ غبن کے کیس میں سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی فرزانہ راجا نے عدالت سے ویڈیو کال کے ذریعے سماعت میں شرکت کرنے کی اپیل کردی۔

احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے فرزانہ راجا اور دیگر 18 ملزمان کے خلاف مبینہ غبن سے متعلق ریفرنس میں سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی نے یہ درخواست کی ہے کہ انہیں امریکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اجازت دی جائے۔

خیال رہے کہ رواں سال مئی میں احتسیاب عدالت نے سابق چیئرپرسن بی آئی ایس پی، سابق پریس انفارمیشن افسر اور دیگر 17 ملزمان کو متعلقہ قوانین کی پاسداری کے بغیر اشتہار جاری کرنے میں مبینہ طور پر کرپشن پر طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی آڈٹ رپورٹ میں بے ضابطگیوں کا انکشاف

ملزمان کی جانب سے 4 اشتہاری کمپنیوں کو مبینہ طور پر غیرقانونی ٹھیکے دیے گئے جس سے بی آئی ایس پی کو مبینہ طور پر اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

اس حوالے سے ہونے والی سماعت میں فزرانہ راجا کے وکیل ایڈووکیٹ سردار عصمت اللہ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو آگاہ کیا کہ ان کی موکلہ امریکا میں ہیں اور ان کے صحت کے مسائل کی وجہ سے وہ پاکستان سفر نہیں کرسکتیں، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ امریکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی میں شرکت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جس پر جج کی جانب سے فرزانہ راجا کی میڈیکل رپورٹس طلب کیں اور ریمارکس دیے کہ رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد عدالت ان کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے پر فیصلہ سنائے گی، اس کے بعد کیس کی سماعت کو 17 ستمبر کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز

واضح رہے کہ پی پی پی رہنما اور دیگر کے خلاف 32 صفحات پر مشتمل ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ نیب میں ایک شکایت موصول ہوئی جس میں الزام لگایا گیا کہ سال 10-2009 اور 11-2010 میں بی آئی ایس پی نے پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اشتہاری ایجنسیز کو ٹھیکے دیے۔

ساتھ ہی شکایت میں یہ بھی الزام لگایا کہ ایک ارب 65 کروڑ 70 روپے ایم/ایس مداس (پرائیوٹ) لمیٹڈ اشتہاری ایجنسی کو دیے۔

بعد ازاں متعلقہ اتھارٹی نے 23 مئی 2014 میں انکوائری کی منظوری دی جو بہت ازاں تحقیقات میں تبدیل کردی گئی۔


یہ خبر 26 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں