آذربائیجان کا آرمینیا کی فوج کی پسپائی تک لڑنے کا عزم

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2020
نیگورنے-کاراباخ کو عالمی سطح پر آذربائیجان کا حصہ قرار دیا جاچکا ہے—فوٹو: اے ایف پی
نیگورنے-کاراباخ کو عالمی سطح پر آذربائیجان کا حصہ قرار دیا جاچکا ہے—فوٹو: اے ایف پی

آذربائیجان نے متنازع علاقے نیگورنے-کاراباخ سے آرمینیا کی فوج کی مکمل پسپائی تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کردیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف نے کہا کہ 'ہماری صرف ایک شرط ہے کہ آرمینیا کی مسلح افواج غیر مشروط، مکمل اور فوری طور پر ہماری سرزمین خالی کردیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر آرمینیا کی حکومت اس مطالبے کو پورا کرتی ہے تو جنگ اور خون ریزی ختم ہوگی جس کے بعد خطے میں امن قائم ہوگا'۔

مزید پڑھیں: آذر بائیجان، آرمینیا کے درمیان متنازع علاقے میں جھڑپیں، 23 افراد ہلاک

قبل ازیں آذربائیجان کے وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'باکو اپنے علاقے میں مسلط کی گئی جارحیت کے انسداد، مکمل طور پر خود مختاری اور امن کی بحالی تک جوابی وار جاری رکھے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم واضح طور پر آرمینیا کی فوج کا آذربائیجان کے خطے سے انخلا چاہتے ہیں'۔

آرمینیا اور آذربائیجان دونوں ممالک جنگ روکنے اور مذاکرات کے عالمی مطالبات کو مسترد کرچکے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق گزشتہ 4 روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک دونوں اطراف سے مجموعی طور پر 100 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

فرانس کا آرمینیا سے اظہار یک جہتی

فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے متنازع علاقے نیگورنے-کاراباخ میں ہونے والی جھڑپوں کے حوالے سے آرمینیا کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔

انہوں نے دونوں ممالک سے تنازع غیر مشروط طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آذربائیجان نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں لڑائی شروع کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پیشنیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف سے اس معاملے پر بات ہوچکی ہے۔

فرانسیسی صدر نے لٹوویا کے دورے کے موقع پر کہا کہ 'میں چاہتا تھا کہ یہ حملے ختم ہوں اور میں ان حملوں کی شدید مذمت کرتا ہوں'۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان جھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 39 ہوگئی

انہوں نے کہا کہ 'جولائی سے ہی تنازع چل رہا تھا اور پورا یقین ہے کہ چار روز قبل آذربائیجان کی جانب سے ہی حملہ کیا گیا لیکن دونوں ممالک جنگ بندی پر عمل کریں'۔

میکرون نے کہا کہ اس معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے صدر ویلادی میر پیوٹن سے بھی بات کروں گا۔

ترکی کے سخت ناقد فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ 'میں نے نوٹس کیا ہے کہ آذربائیجان کے حق میں ترکی کے سیاسی بیانات آئے ہیں، جن کو میں خطرناک سمجھتا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'فرانس کو ترکی کے جنگ کے حالات جیسے بیانات پر تشویش ہے جو آذربائیجان کے حق میں ہیں تاکہ نیگورنے۔کاراباخ کو فتح کرلیا جائے اور ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے'۔

میکرون نے اپنے بیان میں نیگورنے-کاراباخ کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ آذربائیجان کا علاقہ ہونے سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ آرمینیا کی خود مختاری اور عوام کا احترام کیا جائے اور کشیدگی کو ہوا دینے سے گریز کرنا ہوگا۔

یاد رہے کہ آرمینیا کے حامی علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہوئی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا اور اس لڑائی میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی آذربائیجان کے ضلع توزو پر آرمینیا کے حملے کی مذمت

سوویت یونین سے 1991 میں آزادی حاصل کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان شروع سے ہی کشیدگی رہی جو 1994 میں جنگ بندی معاہدے پر ختم ہوئی تھی۔

بعد ازاں فرانس، روس اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا لیکن 2010 میں امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر ختم ہوگیا تھا۔

متنازع خطے نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے درمیان کشیدگی سے خطے کی دو بڑی طاقتین روس اور ترکی کے درمیان تلخی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشینیان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ترکی کو تنازع سے دور رکھیں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم قفقاز میں مکمل طور پر جنگ کے دہانے پر ہیں اور آذربائیجان کی مطلق العنان حکومت نے ایک مرتبہ پھر آرمینیا کے عوام پر جنگ مسلط کی ہے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے آرمینیا کے وزیراعظم سے فوجی کشیدگی پر بات کی اور تنازع کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب آذربائیجان کے اتحادی ترکی نے کشیدگی شروع کرنے کا الزام آرمینیا پر عائد کیا اور باکو کی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔

آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف کا کہنا تھا کہ 'آرمینیا کی بمباری سے آذربائیجان کی فورسز اور شہری آبادی کا نقصان ہوا ہے'۔

آذربائیجان کے قریبی اتحادی ترکی نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی تشویش کا اظہار کیا تھا اور مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا جبکہ آرمینیا سے جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے بیان میں آرمینیا کو خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آذر بائیجان سے مکمل تعاون کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا آذربائیجان سے سپرمشاق طیاروں کی فروخت کا معاہدہ

اپنی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'ترکی کے لوگ آذربائیجان کے بھائیوں سے ہمیشہ کی طرح ہر ممکن تعاون کریں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آرمینیا خطے کے امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن رہا ہے'۔

عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ آرمینیا کی 'جارحیت کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے'۔

نیگورنو-کاراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے، آرمینیا نے مقامی جنگجوؤں کی مدد سے آذربائیجان کے علاقے پر خطے سے باہر سے حملہ کرکے قبضہ بھی کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں